بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگ بھی کرونا متاثرین کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلمان، ہندوؤں کی آخری رسومات 'کریا کرم' کا انتظام کرتے دیکھے گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گو کہ کرونا کی وجہ سے پورا بھارت اس وقت مشکل میں ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا بھی سبب بن رہا ہے۔
بھارت کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ مسلمان ہندوؤں کی لاشیں شمشان گھاٹوں میں لے جا کر ان کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔
ریاست مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے معین مستان نے بھی کرونا متاثرین کی مدد کے لیے 25 رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بنا رکھی ہے۔
مستان کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم یومیہ 40 سے 50 ہندوؤں کی لاشوں کی آخری رسومات کا انتظام کر رہی ہے۔
مستان کا کہنا ہے کہ اگر اس خدمت کے عوض ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہو گا۔ کیوں کہ اُن کے بقول انسانیت کی خدمت کرنے میں اگر جان جاتی ہے تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔
مستان کی ٹیم نے اس مقصد کے لیے چھ ایمبولینسز حاصل کی ہیں۔ وہ اسپتالوں اور گھروں سے میتیں شمشان گھاٹ اور قبرستانوں تک لے جانے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
رضاکاروں کے اس گروپ میں ڈاکٹر، انجینئر اور بزنس مین بھی شامل ہیں جو اپنی جیب سے یہ کام کر رہے ہیں۔ مستان کی ٹیم کے سامنے ایسے بھی مواقع آئے کہ جب شمشان گھاٹ پر ہی افطار کا وقت ہو گیا اور انہوں نے وہیں روزہ کھولا۔
بھوپال کے دانش صدیقی اور صدام قریشی بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہیں جو لاوارث ہندو لاشوں کی آخری رسومات انجام دے رہے ہیں۔ وہ دونوں میونسپل کارپوریشن کے فائر فائٹنگ ونگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ وہ لوگ روزہ رکھ کر یہ کام کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق بہت سے ہندو گھروں سے فون آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ایک لاش پڑی ہے اس کا کریا کرم (آخری رسومات) ادا کر دیجیے۔ بعض خاندان ویڈیو کالنگ کے ذریعے کریا کرم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول اُنہوں نے اب تک 60 سے زائد ہندو لاشوں کا کریا کرم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت مذہب سے بالاتر ہے۔
'نہ شوہر نے ہاتھ لگایا نہ بیٹوں نے'
بہار میں گیا ضلع کے ایک مقام امام گنج کے ایک نوجوان محمد شارق نے میڈیا کو بتایا کہ 58 سالہ پربھاوتی دیوی بیمار ہو گئیں۔ کرونا ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود اُن کا انتقال ہو گیا۔ تاہم اُن کے گھر والوں کو شک تھا کہ اُن کی موت کرونا سے ہوئی۔ لہذٰا اُنہوں نے انہیں چھونے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ان کی لاش ایک گاڑی میں رکھ دی لیکن نہ تو ان کے شوہر نے ہاتھ لگایا نہ ہی ان کے دو بیٹوں نے۔ لاش دوپہر بارہ بجے سے رات آٹھ بجے تک وہیں پڑی رہی۔
محمد شارق کے مطابق جب انہیں اس کی خبر ملی تو وہ لوگ اسپتال گئے اور خاتون کے اہلِ خانہ کو کریا کرم کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے بانس لا کر ارتھی بنائی اور اس پر لاش رکھ کر شمشان گھاٹ لے گئے جس کے بعد ہی خاتون کے اہلِ خانہ کندھا دینے کے لیے آگے بڑھے۔
پی پی ای کٹ والا گروپ
رپورٹس کے مطابق مہاراشٹرا کے یوتمال ضلع کے چار مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ اب تک 800 سے زائد ہندو لاشوں کی آخری رسومات ادا کر چکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق لکھنؤ کے مسلمان نوجوانوں کا ایک گروپ پرسنل پروٹیکس ایکویپمنٹ (پی پی ای کٹ) پہن کر لاشوں کی آخری رسومات انجام دے رہا ہے۔ مقبرہ گولہ گنج علاقے کے 33 سالہ امداد امام اپنے 22 رضاکاروں کے ساتھ اب تک ایک درجن سے زائد ہندو لاشوں کا کریا کرم کر چکے ہیں۔
امداد امام نے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کو بتایا کہ ان میں سے کئی لاشیں لاوارث تھیں اور کئی کے اہل خانہ خود بیمار تھے۔ ان کی ٹیم اب تک 30 مسلمانوں کی بھی تدفین کر چکی ہے۔
ہندو دوست کی لاش کے لیے 400 کلومیٹر کا سفر
اتر پردیش کے الہ آباد میں ایک مسلمان نے اپنے ہندو دوست کی آخری رسومات انجام دینے کے لیے 400 کلومیٹر کا سفر کیا۔
شیراز نامی شخص نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا دوست ہیم راج الہ آباد ہائی کورٹ میں جوائنٹ رجسٹرار تھا۔ اسے کرونا ہو گیا۔ اس نے شیراز کو فون کیا کہ وہ اسے اسپتال میں داخل کرا دے۔ اسپتال میں اس کی موت ہو گئی۔
شیراز کے مطابق ہیم راج کے رشتے داروں نے مبینہ طور پر کرونا کے خوف سے اس کی چتا جلانے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا شیراز نے اس کی چتا کو آگ لگائی۔
پیارے خان کا کارنامہ
ایک رپورٹ کے مطابق ناگپور کے ایک بزنس مین پیارے خان نے 85 لاکھ روپے خرچ کر کے 400 میٹرک ٹن آکسیجن اسپتالوں کو سپلائی کی۔ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں کئی لوگوں کی جان بچ گئی۔ جب انتظامیہ نے انہیں اس کی قیمت ادا کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے زکوة کی رقم سے یہ خدمت کی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی کے نواح میں ایک بزنس مین محمد شاہنواز نے اپنی کار فروخت کر دی۔ اس سے ان کو 35 لاکھ روپے ملے۔ انہوں نے وہ ساری رقم آکسیجن خریدنے کے لیے دے دی۔
'کرونا نے بھائی چارہ کی فضا قائم کر دی'
انٹرفیتھ ہارمونی فاؤنڈیشن آف انڈیا، نئی دہلی کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت مسلم طبقے میں ایسے متعدد گروپ بن گئے ہیں جو آنجہانی ہندو بھائیوں کا کریا کرم کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ان واقعات سے ملک میں انسانی ہمدردی اور ہم آہنگی کا ایک ماحول بن رہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی جو خلیج پیدا کر دی گئی ہے وہ اب کم کرنے میں مدد ملے گی۔
'اب نفرت کی سیاست نہیں چلے گی'
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے وابستہ گاندھیائی فلسفے کے علمبردار اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر انل دتہ مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ملک رہا ہے۔ آج بہت سے مسلمان ہندوؤں کی لاشوں کا کریا کرم کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ملک کے دونوں بڑے مذاہب میں پہلے سے ہی بھائی چارہ تھا البتہ کچھ سیاست دانوں نے اس بھائی چارے کو اپنی سیاست کی خاطر تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ انہیں مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے۔ کرونا وبا نے لوگوں کو ایک بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد پروفیسر عذرا عابدی نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وبا کے دوران ہندو مسلم اتحاد نظر آرہا ہے۔
ان کے مطابق جہاں ایک طرف مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ہندوؤں کی لاشوں کو شمشان میں لے جا کر ان کی آخری رسومات انجام دی ہیں تو وہیں ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے بھی ایسی خدامت انجام دینے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعات یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم بھارت کی قدیم روایات پر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انتہاپسندی کی سیاست کرنے والے شاید اس کو پسند نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔
دہلی میں موجود سکھوں کی ایک تنظیم "یونائٹیڈ سکھ" کے ڈائریکٹر پیتم سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اب تک کرونا سے ہلاک ہونے والے 350 سے زائد افراد کی آخری رسومات انجام دے چکے ہیں۔