رسائی کے لنکس

بھارت میں وبا کے باعث میڈیکل کے طلبہ پر کام کا شدید دباؤ


جموں میں طبی عملہ اور لواحقین ایک میت کو آخری رسومات کے لئے لے جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
جموں میں طبی عملہ اور لواحقین ایک میت کو آخری رسومات کے لئے لے جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

بھارت میں میڈیکل کے ہزاروں طلبہ گزشتہ ایک برس سے سرکاری اسپتالوں میں شدید دباؤ کے حالات میں کام کر رہے ہیں، جب کہ انہیں قلیل اجرت، وبا سے متاثر ہونے کا خطرہ اور ڈگری کا تسلسل ٹوٹنے کی شکایت بھی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں منگل کے روز کرونا وائرس کے 3 لاکھ 23 ہزار ایک سو 44 نئے کیسز کی تشخیص کے بعد وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 اعشاریہ چھ ملین تک پہنچ گئی ہے۔

بھارت امریکہ کے بعد وہ دوسرا ملک بن گیا ہے، جہاں کرونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

بھارتی وزارتِ صحت کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 ہزار 7 سو 71 افراد کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں، جب کہ ہر گھنٹے میں ایک سو 15 نئی اموات رپورٹ کی گئی ہیں۔

اس صورتِ حال سے جہاں کئی شعبے متاثر ہوئے ہیں، وہاں میڈیکل کے طلبہ پر دباؤ میں بے اندازہ اضافہ ہوا ہے۔

بھارت میں اس وقت 541 میڈیکل کالج ہیں، جن میں 36 ہزار سے زائد پوسٹ گریجویٹ طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی یونین کے مطابق، ان میں سے اکثر طلبہ سرکاری اسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔

میڈیکل کی ایک طالبہ تارا کے مطابق ’’ہمیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔‘‘

بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے 26 برس کے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سٹوڈنٹ جگنیش گنگاڈیا نے جب سورت شہر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں ریزیڈنسی شروع کی، تو انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ ہفتے کے سات روز 24 گھنٹے کام کریں گے۔ مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ 60 عام مریضوں اور 20 انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو دیکھنے والے اکیلے ڈاکٹر ہوں گے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ کے مریضوں کو مسلسل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ''اگر ایک ہی وقت میں دو مریضوں کی حالت خراب ہو جائے تو میں ایسے میں کیا کروں گا؟''۔

ہندو راؤ ہسپتال، جہاں تارا کام کرتی ہیں، حالات کی خرابی کی تصویر کھینچتا ہے۔ اس ہسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بستر بڑھائے گئے ہیں، لیکن نئے ڈاکٹر نہیں رکھے گئے۔ اس کی وجہ سے، تارا کے مطابق، پہلے سے موجود ڈاکٹرز کے لیے کام چار گنا بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ، بقول ان کے، سینئر ڈاکٹر وائرس کے مریضوں کے علاج سے انکار کر رہے ہیں۔

تارا کے بقول، ’’مجھے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سینئر ڈاکٹرز کی عمر زیادہ ہے اور ان کا وائرس سے شدید متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہے مگر وائرس کی اس نئی لہر سے یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ اس سے عمر رسیدہ اور نوجوان، دونوں یکساں طور پر متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ تارا کے مطابق، وہ دمے کی مریضہ ہیں، مگر پھر بھی کرونا وائرس کے وارڈ میں ڈیوٹی دے رہی ہیں۔

وبا کے دوران ان کے وارڈ میں 200 بستروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دو ڈاکٹر 15 بیڈز کو دیکھتے تھے۔ اب وہی دو ڈاکٹر 60 مریضوں کو دیکھتے ہیں۔

اے پی نے رپورٹ کیا ہے کہ اس کے علاوہ ڈیوٹی پر موجود سٹاف میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ سرجری کے محکمے میں کام کرنے والے ایک طالب علم کے مطابق ایک مہینے کے دوران 75 فیصد پوسٹ گریجویٹ طلبہ میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

تارا، جو ہندو راؤ ہسپتال میں پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن کی رکن ہیں، کہتی ہیں کہ طلبہ کو تنخواہیں بھی دیر سے دی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ،پچھلے مہینے طلبہ کو بھوک ہڑتال پر جانے کے بعد پچھلے 4 ماہ کی تنخواہ دی گئی تھی۔

بھارت میں کرونا: اسپتالوں میں رش اور آکسیجن کی قلت
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

اسپتال کے سینئر ماہر، ڈاکٹر راکیش راہ کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے وبا کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، پوسٹ گریجویٹ طلبہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق، سینئر ڈاکٹرز اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کے مختلف فرائض ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ طلبہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں جب کہ سینئر ڈاکٹر ان کی نگرانی کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت اپنی کل قومی پیداوار کا صرف 1.3 فیصد طب کے شعبے پر خرچ کرتا ہے۔ یہ دنیا کی تمام بڑی معیشتوں میں سب سے کم ہے۔

سورت میں سرکاری میڈیکل کالج کے طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں کافی عرصے سے ایک بھی درسی لیکچر نہیں مل سکا۔ پچھلے برس مارچ کے مہینے سے ہسپتال میں مسلسل مریض آ رہے ہیں اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کے طلبہ اپنا سارا وقت ان مریضوں کے علاج پر صرف کر رہے ہیں۔ شہر میں اس وقت یومیہ 2 ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔

وبا کی وجہ سے مسلسل دباو میں کام کرنے والے بہت سے طلبہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔

اے پی کے مطابق، سرجن بننے والے طلبہ کو اپنڈیکس ہٹانا نہیں آتا، پھیپھڑوں کے ماہر بننے والوں کو پھیپھڑوں کے کینسر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ اور بائیو کیمسٹ اس وقت خون کے ٹیسٹ کر رہے ہیں۔

ایک مقامی ہسپتال کے سرجری ڈیپارٹمنٹ کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر، ڈاکٹر شردھا سبرامنیم کے بقول ’’اس ایک سال میں ہم نے کس قسم کے ڈاکٹر پیدا کئے ہیں؟‘‘

XS
SM
MD
LG