خلا میں پہلے امریکی الین شیپرڈ کے سفر کو 60 سال ایسے میں مکمل ہو گئے ہیں جب بہت سے لوگ خلا میں جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوز کی بلیو اوریجن کمپنی نے نیو شیفرڈ نامی راکٹ میں ایک سیاح کی سیٹ کی نیلامی کی۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہ راکٹ 20 جولائی کو ٹیکساس سے اپنا سفر شروع کرے گا۔
یاد رہے کہ 20 جولائی وہ دن تھا جب 1969 میں امریکی خلائی جہاز اپالو 11 چاند پر اترا تھا۔
رچرڈ برینسن کی کمپنی ورجن گلیکٹک اگلے برس خلا میں سیاحوں کو لے جانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ایسے ہی ارب پتی ایلن مسک کی سپیس ایکس کا ستمبر میں سیاحوں کو لے جانے کا ارادہ ہے۔ اگلے برس جنوری میں تین کاروباری افراد کے بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں لے جانے کا بھی منصوبہ ہے۔
ناسا کے خلاباز شین کمبرو نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے خبر رساں ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خلا میں رہنے جیسا شاندار تجربہ حاصل کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مزید لوگ بھی یہ تجربہ حاصل کر سکیں۔ ان کے مطابق یہ سب منصوبے درست سمت میں ایک قدم ہیں۔
یاد رہے کہ مئی 1961 میں محض 15 منٹ کے لیے خلا میں جانے والے امریکی شخص ایلن شیپرڈ وہ پہلے شخص نہیں تھے جو خلا میں گئے۔ ان سے تین ہفتے پہلے سوویت یونین کے شہری یوری گیگرین خلا کا سفر کر چکے تھے۔
یوری گیگرین اور ایلن شیپرڈ کے بعد امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مطابق اب تک 579 افراد خلا میں جا چکے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی امریکی شہری ہیں اور 20 فیصد سوویت یا روسی شہری۔ ان خلابازوں میں سے 90 فیصد کے قریب خلاباز مرد ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ناسا کی خلابازی کی ٹیمیں پہلے سے زیادہ متنوع ہیں۔
امریکی ریاست ایریزونا میں سیاہ فام کمیونٹی کے ایک کالج میں مدرس کا کام کرنے والی سیان پروکٹر سپیس ایکس کی اگلی فلائیٹ میں خلا میں جائیں گی۔ ان کے مطابق ان کا خلا میں جانا ایک اہم سنگ میل ہے۔ وہ خلا کو ایک منصفانہ، مساوی، متنوع اور بھائی چارے والی جگہ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں۔
اے پی کے مطابق ناسا بھی خلائی سیاحت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ناسا کی چیف کیتھی لوڈرز نے سپیس ایکس کی جانب سے چار خلابازوں کو خلا میں لے جانے کے اعلان کے بعد کہا کہ ہمارا ہدف ہے کہ ایک دن سب خلا میں جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ ایسے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔
لیکن ایسا پہلے نہ تھا۔ بیس برس پہلے ناسا نے روسی خلائی حکام پر اس وقت تنقید کی تھی جب وہ دنیا کے پہلے خلائی سیاح کے مشن کو تیار کر رہے تھے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈینس ٹیٹو نے اس وقت دو کروڑ ڈالر دے کر روسی راکٹ کے ذریعے خلائی سٹیشن کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت امریکی ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والی سپیس ایڈوینچررز نامی کمپنی نے ان کے ہفتے بھر طویل خلائی سفر کا بندوبست کیا تھا۔ یہ سفر چھ مئی 2001 میں ختم ہوا۔ اس کے بعد ایسی سات مزید سیاحتی دورے کروائے گئے تھے۔
سپیس ایڈوینچررز کے شریک بانی ایرک اینڈرسین نے ڈینس ٹیٹو کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی دولت کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے بیس برس پہلے ایک نئی انڈسٹری کی شروعات کی تھی۔ بقول ان کے، آج خلا کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی ہو گئی ہے، اور یہ سب کے لیے ہے۔
ڈیوک یونی ورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلکس رولینڈ نے اے پی سے بات کرتے ہوئے جہاں اس بات کا اقرار کیا کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھیں، وہیں انہوں نے سوال اٹھایا کہ خلا میں یہ دلچسپی کب تک باقی رہے گی؟ انہوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ اس کام میں جانوں کے ضیاع کے بھی خدشات ہیں۔
ٹیکنالوجی کے شعبے کے سرمایہ کار جیرڈ آئیزک مین نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مستقبل میں کچھ برا ہو جاتا ہے، تو ان سب افراد کی خواہشات ماند پڑ جائیں گی جو آج کمرشل خلاباز بننا چاہتے ہیں۔
اے پی کے مطابق ان خدشات کے علاوہ خلا میں جانے پر اخراجات بھی ہوش ربا ہیں۔ سپیس ایکس کی جانب سے جن امریکی، کینیڈین اور اسرائیلی کاروباری شخصیات کو خلا میں بھیجا جا رہا ہے، انہوں نے اس سفر کے لیے ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر فی خلا باز کا معاوضہ ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ چند منٹوں کے لیے خلا میں بھیجنے کے ورجن گلیکٹک کے منصوبے میں ٹکٹ کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے ہے۔
لیکن ان سب خدشات کے باوجود جارج واشنگٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر جان لوگسڈان کی اس بارے میں ملی جلی رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خلا میں جانے کے لیے ایک خاص قسم کا رومانس اور دلچسپی ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خلا میں جانے کا نیا دور نہیں ہے، بلکہ خلا میں جانے کو خاص سمجھنے کے دور کا اختتام ہے۔ بقول ان کے یہ بھی بہت اہم ترقی ہے۔