برطانوی فیشن میگزین برٹش ووگ کو انٹرویو دیتے ہوئے نوبل انعام یافتہ پاکستانی خاتون ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ نظریہ اور مقصد رکھنے والی نوجوان لڑکی اپنے دل میں جو طاقت رکھتی ہے، انہیں اس کا علم ہے۔
برٹش ووگ کی صحافی سیرین کیل نے لکھا کہ انٹرویو کے دوران ملالہ کا دوپٹہ ان کے کندھوں پر پڑا تھا اور ان کے بال کھلے تھے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ملالہ نے کہا کہ وہ سر پر دوپٹہ عموماً گھر سے باہر ہی اوڑھتی ہیں۔ گھر پر، یا دوستوں کے درمیان بقول ان کے ’’ایسے ہی ٹھیک ہے۔‘‘
سر پر دوپٹہ لینے یا اسکارف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملالہ نے کہا کہ یہ ان کے لیے مذہبی سے زیادہ ثقافتی استعارہ ہے۔ ان کے مطابق ’’یہ ہم پشتونوں کے لیے ثقافتی علامت ہے۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "جب مسلمان خواتین، پشتون یا پاکستانی خواتین اپنا ثقافتی لباس پہنتی ہیں تو ہمیں مظلوم، بے آواز اور پدرشاہی نظام میں پھنسا ہوا سمجھا جاتا ہے۔ میں یہ سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ اپنی ثقافت میں رہ کر بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور اپنی ثقافت میں بھی مساوت اور برابری حاصل کی جا سکتی ہے۔"
اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے بعد وہ بھی باقی دنیا کے نوجوانوں کی طرح، بوریت کا شکار، مقصد کے بغیر اور بقول ان کے ملازمت سے محروم ہو گئی تھیں۔
انہوں نے یہاں پر خود سوال اٹھایا کہ اگرچہ ملالہ فنڈ میں ان کا کام جاری ہے، مگر آکسفورڈ سے گریجویشن کے بعد زندگی کے اس موڑ پر وہ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں۔
انٹرویو میں انہوں نے ایپل ٹی وی پلس کے لیے اپنی پروڈکشن کمپنی بنانے کے بارے میں بتایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ خواتین کی تعلیم پر مبنی دستاویزی فلمیں بنانے کے ساتھ وہ ایسے ٹی وی شو بنائیں جنہیں دیکھ کر لوگ ہنسیں اور قہقہے لگائیں۔ بقول ان کے اگر یہ شو دیکھنے کے بعد مجھے مزہ نہ آیا اور میں نہ ہنسی تو انہیں اسکرین پر نہیں جانے دوں گی۔
ملالہ نے کہا کہ ہم نے انسانی حقوق کے کام کو ٹوئٹر سے جوڑ دیا ہے۔ ہمیں اسے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹوئٹر ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔
برٹش ووگ کے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ملالہ نئی نسل کے ایکٹوسٹس میں رہنما کی صورت اختیار کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آواز اٹھانے والی 18 برس کی گریٹا تھنس برگ ہوں یا گن کنٹرول کی مہم چلانے والی 21 برس کی ایما گونزالز، دونوں ان سے مشورے کے لیے پیغام بھیجتی ہیں۔ بقول ملالہ ’’وژن اور مشن رکھنے والی نوجوان لڑکی اپنے دل میں جو طاقت رکھتی ہے، مجھے اس کا علم ہے۔‘‘
ملالہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں جا کر پہلی بار انہیں اپنی عمر کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بتایاکہ وہ اس سب کے لیے بہت پرجوش تھیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی تھیں کہ دوسرے طلبا انہیں بالکل طالب علم کی طرح ہی دیکھیں اور ٹی وی پر آنے والی ملالہ کی طرح ان سے سلوک نہ کریں۔
انہوں نے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد اپنی تنہائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی میں جا کر ان کے دوست بنے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جب آکسفورڈ میں پڑھنا شروع کیا تو انہیں لگا کہ وہ اب دنیا کے بہترین دماغوں کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا۔
ان کی زندگی پر ایک سوال میں ملالہ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا پارٹنر ان کو چاہنے والا، ان کو سمجھنے والا اور ان کا خیال رکھنے والا ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ رومانی تعلقات کے بارے میں نروس ہیں۔ بقول ان کے اس بارے میں کوئی کیسے یقین رکھے کہ کسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ آپ کی زندگی میں کوئی فرد آئے تو اس سے شادی کرنا کیوں ضروری ہے، صرف پارٹنرشپ کیوں نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتیں۔ ملالہ کے بقول، "میری ماں کہتی ہیں، ایسی بات کہنے کی جرات بھی مت کرنا، تمہیں شادی کرنی ہوگی، شادی خوبصورت رشتہ ہے"۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے دوسرے برس تک ان کا خیال تھا کہ وہ کبھی شادی نہیں کریں گی۔ بقول ان کے کبھی بچے نہیں ہوں گے اور وہ بس کام کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ لیکن وقت کے ساتھ انسان بدل جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئیں تو وہ دن میں خواب دیکھتی تھیں کہ ان کا طیارہ پاکستان میں اتر رہا ہے۔