رسائی کے لنکس

'ہم ایسی دنیا بنائیں گے، جہاں ہر لڑکی پڑھ لکھ کر لیڈر بن سکے'


ملالہ یوسف زئی۔ فائل فوٹو
ملالہ یوسف زئی۔ فائل فوٹو

ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ وہ اپنے ادارے ملالہ فنڈ کے ذریعے یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، کہ دنیا بھر میں تعلیم سے محروم 13 کروڑ لڑکیوں کو سکول بھیجا جا سکے اور جو لڑکیاں سکول جا رہی ہیں، انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر ایک ورچوئل تقریب میں گفتگو کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستان، بھارت، افغانستان، نائیجیریا اور برازیل جیسے ملکوں میں مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کیا جا سکے۔

گفتگو کے اس آن لائن سیشن کی میزبانی جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف شجاع نواز کر رہے تھے۔ انہوں نے خواتین کے عالمی دن سے تین دن قبل ہونے والی اس گفتگو کے ابتدائیے کا آغاز ملالہ کے ہی الفاظ سے کرتے ہوئے کہا کہ"ہم ایسی دنیا بنائیں گے، جہاں ہر لڑکی پڑھ سکے اور لیڈر بن سکے"۔

ملالہ نے اس موقع پر معیشت اور سیاست سمیت تمام شعبوں میں خواتین کو شامل کرنے کے لئے تعلیم کو سب سے اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کا اپنے حقوق کو جاننا، اور ناانصافی کے خلاف لڑنے کے لیے تعلیم، اور شعور حاصل کرنا بےحد ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سوات میں وہ اپنے والد کے ساتھ مقامی طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہی تھیں، اس لیے وہ فروغ تعلیم کے لئے مقامی کارکنوں کے کام کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے ملالہ فنڈ دنیا بھر میں حصول تعلیم کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے نائیجیریا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کرونا کے مشکل دور میں بھی وہاں کارکن سکول کے اسباق دینے کے لیے ریڈیو کا استعمال کر رہے ہیں. وہ پالیسی کی تبدیلی کے لیے کام کر رہے ہیں. وہ کوشش کر رہے ہیں کہ سیکنڈری کے درجے کی تعلیم بچوں کو دینا لازمی کی جائے، اور وہ قوانین کو تبدیل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

ملالہ نے برازیل، پاکستان، افغانستان اور کئی ملکوں میں تعلیم کے لئے ایڈووکیسی کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام طویل اور دقت طلب ہے، اس کے لیے اس یقین کا ہونا ضروری ہے کہ اگر مسلسل کوشش کی جاتی رہے تو نتائج ضرور ملیں گے۔

امریکی والدین بچوں کی آن لائن تعلیم سے خوش کیوں نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:09 0:00

انہوں نے اپنے ماڈل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہم تین چیزوں پر توجہ دے رہے ہیں، تعلیم پر سرمایہ کاری، تعلیمی معیار اور سماجی اقدار"۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم پر سرمایہ کاری کے لئے پالیسیوں میں تبدیلی اور تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی اور نصاب میں جینڈر سینسی ٹیو یا صنفی حساسیت پیدا کرنے والا مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ معاشرتی اقدار کو خواتین کے لئے تعلیم دوست بنانے کا کام مقامی اور مذہبی رہنماؤں، اساتذہ اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر معاشروں میں خواتین کے لئے تعلیم کا حق ان کی سماجی اقدار، اور مذہب کا حصہ ہے، لیکن اس بارے میں شعور عام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس آن لائن گفتگو میں تعلیم کے فروغ پر کام کرنے والی دیگر شخصیات نے بھی حصہ لیا، جن میں الف لیلی بک بس سوسائٹی کی صدر سیدہ بصارت کاظم، پہلی کرن سکولز کی بانی صابرہ قریشی، میپل ایڈوائزری گروپ کی شریک بانی اور سی ای او آنیہ نیاز شامل ہیں۔ شریکین نے ملالہ سے ان کے کام کے بارے میں سوالات کیے۔

واضح رہے کہ اس سال جنوری میں امریکی کانگریس نے ملالہ یوسف زئی کے نام پر پاکستانی خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا ایک بل منظور کیا تھا، جس کے تحت امریکہ کی طرف سے پاکستانی خواتین کے لیے میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر فراہم کئے گئے وظائف کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

اس بل کے تحت بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے 'یو ایس اے آئی ڈی'کے لئے ضروری ہوگا کہ سال 2020 سے 2022 کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لئے دیئے جانے والے نصف وظائف پاکستانی خواتین کو دے، جو انہیں میرٹ کی بنیاد پر مختلف تعلیمی شعبوں میں دیے جائیں گے۔

اٹلانٹک کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم سے دنیا کی مجموعی پیداوار میں 12 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے، نوزائیدہ بچوں کی اموات کو روکا جاسکتا ہے، خاندانوں کی صحت بہتر بنائی جا سکتی ہے، جب کہ صنفی بنیاد پر معاشی ناانصافی کی روک تھام اور انتہاپسندی کے خاتمے میں مدد لی جا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی کئی سال سے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھانے اور اپنی خدمات پر نوبیل انعام حاصل کر چکی ہیں۔

انہوں نے 2013 میں ملالہ فنڈ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جو لڑکیوں کے لیے 12 سال تک مفت تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔

پاکستانی طالبان نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر ملالہ پر 2012 میں اسکول سے واپسی پر ایک شدید حملہ کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور وہیں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے حال ہی میں برطانیہ سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔

XS
SM
MD
LG