افغانستان کے صوبے بغلان میں نامعلوم افراد نے بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کے 10 رضا کاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
افغان وزارتِ داخلہ نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ بارودی سرنگوں (آئی ای ڈی) کو ناکارہ بنانے کا کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ہالو ٹرسٹ‘ کے رضا کاروں کو شمالی افغانستان کے صوبے بغلان میں قائم کیمپ میں نقاب پوش افراد نے نشانہ بنایا۔
صوبہ بغلان کی پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نشانہ بننے والے تمام افراد افغان شہری ہیں۔ یہ افراد غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کا کام کرتے تھے۔
پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے ان رضا کاروں کو ہلاک کرنے سے قبل ایک کمرے میں جمع کیا اور پھر ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان حکام رضاکاروں کے قتل کے لیے افغان طالبان کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور اس حملے کو بھی طالبان کے حالیہ پر تشدد کارروائیوں کی مہم کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طالبان بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے والی ایجنسی کے ایک کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے اور وہاں موجود افراد کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
بغلان کے گورنر کے ترجمان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ حملہ آوروں نے چہروں پر نقاب لگائے ہوئے تھے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح المجاہد نے اس حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ بغلان میں بارودی سرنگوں کی صفائی کرنے والے رضا کاروں پر حملے سے مجاہدین کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نہتے افراد پر حملے کی مذمت کرتے ہیں جب کہ اس کو ظلم سمجھتے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ طالبان کے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ عمومی تعلقات ہیں۔ جب کہ طالبان مجاہدین کبھی ایسے ظالمانہ حملے نہیں کریں گے۔
حملے کا نشانہ بننے والی غیر سرکاری تنظیم ’ہالو ٹرسٹ‘ نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغلان کے اس علاقے میں 100 سے زائد مقامی افراد بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے عمل میں شامل رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ مسلح افراد کا ایک گروہ کیمپ میں داخل ہوا اور اس نے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس وقت کیمپ میں 110 مقامی رضا کار موجود تھے۔ یہ رضا کار قریبی علاقوں میں بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کا کام کر رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ نے بھی اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس واقعے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کے افغان دارالحکومت کابل میں انسانی حقوق کے معاون رمیز اکبروف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ یہ ایک گھناؤنا عمل ہے کہ اس تنظیم کو نشانہ بنایا جائے جو بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کے عمل میں مصروف ہو اور جو کمزور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا کام انجام دے رہی ہو۔
افغان صدر اشرف غنی نے بھی حملے کی مذمت کی ہے۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان صرف بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے والوں کو نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ وہ امدادی اداروں، تعلیمی اداروں، مساجد، اساتذہ، طلبہ سب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
خیال رہے کہ ’ہالو ٹرسٹ‘ نے افغانستان میں بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کا کام 1988 میں شروع کیا تھا۔ سویت یونین نے ایک دہائی تک قبضے کے بعد 1989 میں افغانستان سے انخلا مکمل کیا تھا۔
یہ غیر سرکاری تنظیم صرف افغانستان میں ہی امور انجام نہیں دے رہی بلکہ دنیا کے دیگر خطوں جن میں افریقہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے ممالک شامل ہیں، میں جنگ کے بعد بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکہ خیز خطرناک مواد کو ناکارہ بنانے کا کام سر انجام دیتی ہے۔
ہالو ٹرسٹ کے مطابق افغانستان میں اس کے 2600 رضا کار ہیں جنہوں نے ملک میں 80 فی صد ان بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنا دیا ہے جو کہ ریکارڈ پر موجود ہیں۔
بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے والی غیر سرکاری تنظیم کے رضاکاروں کو ایسے وقت میں قتل کیا گیا ہے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی افواج کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ فوجی انخلا کا عمل یکم مئی سے شروع ہوا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یکم مئی کے بعد سے اب تک وہ 14 اضلاع پر مکمل طور پر قبضہ کر چکے ہیں۔
افغانستان میں حالیہ دنوں میں پر تشدد کارروائیوں میں فریقین کے ساتھ ساتھ درجنوں عام شہری بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔
ایک روز قبل منگل کو ہی امریکہ کی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے واپسی کا 50 فی صد سے زائد عمل مکمل کر لیا ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا فروری 2020 کے اس معاہدے کے تحت ہو رہا ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مئی تک فوجی انخلا مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی البتہ بعد ازاں جو بائیڈن کے امریکہ کے صدر بننے کے بعد یہ انخلا 11 ستمبر 2021 تک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔
دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان میں افغانستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کا آغاز ہوا۔ البتہ ان مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔