لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب بدھ کو ہونے والے دھماکے کا مقدمہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی، قتل، اقدامِ قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمے میں نامعلوم دہشت گردوں کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے جوہر ٹاؤن کے علاقے ای بلاک میں کارروائی کے لیے گاڑی استعمال کی۔
تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمہ ایس ایچ او عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق دھماکے میں تین افراد ہلاک اور چوبیس زخمی ہوئے۔
حکام کے مطابق علاقے کی جیو فینسنگ مکمل ہو چکی ہے جب کہ دھماکے کے وقت ہونے والی فون کالز کی بھی تفصیلات اکٹھی کر لی گئی ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے کی تحقیقات میں سی سی ٹی وی کیمروں، سیف سٹی اتھارٹی اور فرانزک سائنس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل کی گئی ہے۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دھماکے میں 30 کلو گرام سے زائد غیر ملکی ساختہ دھماکہ خیز مواد اور بال بیرنگ استعمال ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دھماکہ خیز مواد کار میں نصب تھا۔ جو ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے قریب ہے۔
تجزیہ کار دھماکے میں غیر ملکی ہاتھ شامل ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) شوکت جاوید کہتے ہیں کہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب دھماکہ بعض قوتوں کی جانب سے ایک پیغام دینا لگتا ہے اور یہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دھماکے سے متعلق یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ کس نے کرایا۔ ان کے بقول "بظاہر لگتا ہے کہ اِس دھماکے میں طالبان کی دلچسپی ہو سکتی ہے اور نہ ہی امریکہ کی لیکن شبہ ہے کہ دھماکے میں افغان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔"
دھماکے کا پیغام کیا ہو سکتا ہے؟
دفاعی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق لاہور شہر میں ایک لمبے عرصے بعد دھماکہ ہوا ہے جس کے بعد انتہا پسند گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے وہ محفوظ شہر سمجھے جانے والے شہر میں بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے کو حافظ سعید کے ساتھ جوڑنا ہر کسی کی اپنی تشریح ہے اور اِس میں تبصرہ نگار کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کون سے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اِسے کس کے ساتھ جوڑتا ہے۔
اُن کے بقول اِس سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گروں کی پہنچ لاہور کے اندر ایک اچھی آبادی بھی ہو سکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی کا عنصر کم تو ہوا ہے لیکن اب بھی موجود ہے۔
ہدف حافظ سعید یا کوئی اور؟
گزشتہ روز انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی نے جوہر ٹاؤن دھماکے کو ملک دشمن عناصر کی کارروائی قرار دیا تھا۔ صحافیوں کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ہائی ویلیو ٹارگٹ (حافظ سعید کے) گھر کے قریب پولیس ناکہ تھا۔
سابق آئی جی پولیس شوکت جاوید کے مطابق حافظ سعید کے گھر کے قریب موجود پولیس ناکے کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دینا تھا کہ دہشت گرد حافظ سعید تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کی رائے میں دھماکے کا ہدف حافظ سعید کے ہونے کی بات بے معنی ہے کیوں کہ ان کے بقول وہ دھماکے کے وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ اُن کے بقول کسی کو بھی نہیں معلوم کے دہشت گرد یا دھماکے کا اصل ہدف کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ رپورٹ کر رہے ہیں کہ حافظ سعید دھماکے کے وقت اپنے گھر میں ہی موجود تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر حافظ سعید اپنی رہائش گاہ میں موجود ہوتے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔
حافظ سعید کہاں ہیں؟
واضح رہے سی ٹی ڈی پنجاب نے حافظ سعید اور ان کے دیگر ساتھیوں کو گزشتہ برس گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج تھے۔
حافظ سعید کو اِنہی مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے قید اور جرمانے کی سزائیں سنا رکھی ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق حافظ سعید اِس وقت جیل میں قید ہیں۔
حافظ سعید کون ہیں؟
حافظ سعید کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔ اُنہوں نے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔
حافظ سعید نے 1970 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی مہم بھی چلائی۔ 1974 میں پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) میں اسلامیات کے لیکچرار بھی رہے۔
بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے سعودی عرب میں بھی مقیم رہے۔ 1979 میں افغان جنگ کے دوران حافظ سعید جہادی کمانڈر عبدالرسول سیاف کے ٹریننگ کیمپ میں بھی شامل رہے۔
حافظ سعید نے 1990 کی دہائی میں مبینہ طور پر لشکر طیبہ کی بنیاد رکھی۔ جس پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں ملوث ہے۔ تاہم حافظ سعید اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔
بھارت کی حکومت انہیں نومبر 2008 میں بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے پاکستان سے ان کی حوالگی کا بھی مطالبہ کرتی رہی ہے۔
لشکر طیبہ پر پابندی کے بعد حافظ سعید نے اپنی تنظیم کا نام جماعت الدعوة رکھ لیا تھا۔ جس کے تحت چلنے والی فلاحی تنظیمیں پاکستان میں قدرتی آفات کا سامنا کرنے والوں کی امدادی کارروائیوں میں بھی مصروف عمل رہی ہیں۔ پاکستان نے جماعت الدعوہ کو بھی کالعدم قرار دے رکھا ہے۔