بلوچستان کے علاقے مچھ میں 11 کان کنوں کی ہلاکت کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنے جاری ہیں۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہزارہ برادری ہلاک افراد کی میتیں آج دفنائے تو وہ آج ہی کوئٹہ پہنچنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ دنیا میں کہیں وزیرِ اعظم کو ایسے بلیک میل نہیں کیا جاتا۔ میرے دورے کو میتوں کے دفنانے سے مشروط کرنا مناسب نہیں آج اگر میتوں کو نہ دفنانے کی لواحقین کی شرط مانی تو یہ غلط روایت قائم ہو جائے گی۔
دھرنے پر بیٹھے لواحقین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ان کے تمام مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔ پوری قوم اور حکومت ہزارہ برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔
یاد رہے کہ کوئٹہ کے مغربی بائی باس پر ہزارہ برادری کے افراد ہلاک کان کنوں کی میتیں سڑک پر رکھ کر گزشتہ پانچ روز سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیرِ اعظم خود کوئٹہ آ کر ان کی داد رسی کریں۔
جمعے کو تقریب سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مچھ واقعہ افسوس ناک ہے جس میں مزدوروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ان کے بقول مچھ واقعہ ہوا تو وزیرِ داخلہ اور دو وفاقی وزرا کو لواحقین سے داد رسی کے لیے کوئٹہ بھیجا لیکن مظاہرین ان کی آمد کی شرط لگائے بیٹھے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں اس طرح وزیرِ اعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاتا۔
وزیرِ اعظم نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کے درپے ہے، فرقہ واریت پھیلانے کے لیے دشمن سازش کر رہا ہے۔
اُن کے مطابق خفیہ اداروں نے چار بڑے واقعات کو رونما ہونے سے روکا ہے۔ کابینہ میں بتایا گیا تھا کہ علما کو قتل کر کے انتشار پھیلایا جائے گا، بڑی مشکل سے یہ آگ بجھائی ہے۔
اپوزیشن کا ردِ عمل
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کا بیان کوئٹہ کے دھرنے میں پڑی میتوں کی توہین ہے۔
اُن کے بقول وزیرِ اعظم نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف نااہل ہیں بلکہ بے رحم بھی ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو لگتا ہے کہ جائز مطالبات کرنا بلیک میلنگ ہے۔ عمران خان بنی گالا کے وزیرِ اعظم ہو سکتے ہیں۔ وہ ملک کے وزیرِ اعظم نہیں بن سکے۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم نے کوئٹہ جانے کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ انا پسند اور بے رحم وزیرِ اعظم نے آج بدترین مثال قائم کی ہے۔
دھرنے میں شریک ایک خاتون معصومہ ہزارہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کو لگتا ہے کہ ہم ڈاکوؤں کا ٹولہ ہیں لیکن ہم مظلوم اپنی میتوں کے ہمراہ صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم خود یہاں آ کر ہماری داد رسی کریں۔
معصومہ کے بقول اگر وزیرِ اعظم کوئٹہ نہیں آتے تو نہ آئیں۔ وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے اور میتوں کا چہلم بھی اسی دھرنے میں کریں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعظم کے کوئٹہ نہ جانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
ایسے میں حکومتی وزیر علی زیدی کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر شہدا کے اہلِ خانہ سے بات کی ہے۔ وہ اپنے پیاروں کی تدفین چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ باقی چیزیں بھی کھل کے سامنے آ جائیں گی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو ہزارہ برادری کے مطالبات پیش کیے۔ وہ تمام مطالبات مان گئے ہیں۔ تاہم اب یہ معاملہ سیاسی بن چکا ہے۔
اُن کے بقول مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے پر سیاسی تقاریر کیں اور یہ بھی کہا کہ ڈٹے رہو۔
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ہزارہ کمیونٹی کے قتل میں بین الاقوامی مافیا ملوث ہے۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چار ایسے گروہوں کو پکڑا ہے جو شیعہ سنی لڑائی کرانا چاہتے تھے۔
شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر ہے۔ پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی اطلاعات ہیں۔ سرگودھا، اسلام آباد اور کراچی سے دہشت گرفتار کیے گئے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے کوئٹہ نہ جانے کے سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ وزیرِ اعظم ہزارہ برادری کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اس المناک حادثے پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ سیاست کے لیے بڑا وقت ہے یہ وقت سیاست کا نہیں، ملک میں اور بھی مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی میتوں کی تدفین ہو گی وزیرِ اعظم وہاں جانے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں تدفین کے بعد جائیں تا کہ کھل کر بات چیت ہو سکے۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد اور صوبائی وزیرِ کھیل عبدالخالق ہزارہ نے جمعرات کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کان کنوں کے لواحقین کو سیاست چمکانے کے لیے دھرنا دینے کا مشورہ دیا۔
عبدالخالق ہزارہ کے اس بیان کے ردِ عمل میں مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی رہنما و سابق صوبائی وزیر آغا رضا کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے کی خواہش مرنے والوں کے لواحقین کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم لواحقین کے ساتھ ہیں جب تک وہ فیصلہ نہیں کرتے ہم خود کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔
کالعدم شیعہ تنظیم کے سات مبینہ عسکریت پسند گرفتار
دوسری جانب محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب اور حساس اداروں نے سرگودھا میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے منظم نیٹ ورک کے سات ارکان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
سی ٹی ڈی کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس نیٹ ورک کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ محمد پاکستان سے ہے جس کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ فسادات کرانا تھا۔
سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ چھ جنوری کو حساس اداروں اور سی ٹی ڈی کو اطلاع ملی کہ دو دہشت گرد فرقہ واریت کی آڑ میں ایک رہنما کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔
سی ٹی ڈی کی ٹیم نے دہشت گردوں کو لقمان کینال کوٹ مومن روڈ پر روکنے کی کوشش کی۔ جس پر دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کی ٹیم پر حملہ کیا۔ سی ٹی ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار ہونے والوں کے نام مشرف عباس عرف باوا جی اور دوسرے کانام امیر باز عرف شاہد ہیں۔ ان دونوں افراد سے آئی ای ڈی، دھماکہ خیز مواد، رائفل، پستول اور دیگر اسلحہ برآمد ہوا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ گرفتار دہشت گردوں کی نشاندہی پر مجموعی طور پر سات دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
احتجاج کا سلسلہ جاری
گیارہ کان کنوں کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف مقامات پر اب تک شاہراہیں بند ہیں۔
کوئٹہ میں مظاہرین لاشوں کے ساتھ سڑک پر دھرنے میں موجود ہیں۔ جب کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی اہم شاہراہوں پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔
کراچی میں سانحہ مچھ کے خلاف 26 مقامات پردھرنا جاری ہے احتجاج و دھرنوں کے باعث شہر کی مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی ہے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق شاہراہ فیصل اور ڈرگ روڈ کے قریب مظاہرین اور شہریوں کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی۔ اس دوران چھ موٹرسائیکلیں نذر آتش کی گئیں۔
اسلام آباد میں جناح ایونیو پر دھرنا جاری ہے۔