میانمار کی فوج کے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے تقریبا ًپانچ ماہ کے بعد "بہار انقلاب" طرز کی تحریک نے ملک بھر میں مظاہروں کو جنم دیا اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے فوجی حکومت کے کریک ڈاؤن سے سینکڑوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
لیکن مسلح افواج نےخود کو مظاہرین کے خلاف کارروائیوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نےصحافیوں کا بھی پیچھا کیا۔
31 سالہ میراٹ کیو تھو ایک صحافی ہیں۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے فرار کے کئی مہینوں کے بعد میراٹ کیو تھو میڈرڈ پہنچ گئے۔
وہ میانمار کے فوجی حکمرانوں کے اعلانیہ نقادوں میں شامل ہیں اور وہ فوج کو مطلوب ہیں۔
اب انہیں اپنے ملک میں جاری کریک ڈاؤن کی صورت حال دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔
انہوں نے جون میں وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا ،"میں بہت افسردہ اور غمزدہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔"
میانمار کی فوج ایک خاص قانون کے ذریعے ہر اس شخص کو ہدف بنا رہی ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ کار سرکار میں مداخلت کا مرتکب ہوا ہے اور قصور وار ثابت ہونے والوں کو برسوں جیل میں گزارنے پڑتے ہیں۔
میراٹ کیو تھو نے کہا کہ انہیں کبھی جیل کا خوف نہیں رہا۔ لیکن انہیں خطرہ یہ تھا کہ اٹھائے جانے کے بعد دوران حراست بہت تشدد کیا جائے گا۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا، "فوج کے لئے یہ ایک عام سی بات ہے کہ پکڑے جانے والے شخص پر رات کو تشدد کیا جائے اور صبح ان کے خاندان کو فون کر کے کہا جائے کہ وہ آ کر نعش لے جائیں۔
یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے فوج نے ہزاروں افراد کو حراست میں لیا ہے، جس میں میڈیا کے متعدد ارکان بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں رہا ہونے والے ایک امریکی ایڈیٹر ناتھن مونگ نے ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جس سے انہیں حراست کے دوران گزرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا، سخت تفتیش کی گئی اور کھانے اور پانی سے محروم رکھا گیا۔
میرٹ کیو نے نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے ایک سیاست دان کی تشدد زدہ تصاویر دیکھنے کے بعد، جنہیں ہلاک کر دیا گیا تھا، میانمار چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
میراٹ نے بتایا کہ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوج نے اسے بہت اذیت دی، یہاں تک کہ اس کے حلق میں گرم پانی ڈالا جس سے اس کی زبان اور اس کی آنکھیں چہرے سے نکل آئیں۔ اس تصویر نے مجھے بہت دہشت زدہ کر دیا۔
میراٹ کیو تھو ایک عشرے سے فری لانس صحافی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے روہنگیا نسل کشی کی کوریج کرنے پر 2017 میں ایجنسی فرانس پریس کا کیٹ ویب ایوارڈ جیتا تھا۔
فوج کی جانب سے انٹرنیٹ بند کیے جانے کے بعد، میراٹ نے مختلف ذرائع سے اصل حقائق سامنے لانے کا کام جا ری رکھا جس پر فوجی حکومت کی انتظامیہ نے ان کی مذمت کی۔
انہوں نے بتایا، " انہوں نے 12 فروری کو جعلی خبریں پھیلانے والے کے طور پر میرے نام کا اعلان کیا۔"
میراٹ کا نام اس وقت بطور خاص فوجی ہنتا کی توجہ کا مرکز بنا جب انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونے والے ایک جنرل کا انٹرویو کیا۔ اس جنرل نے ہزاروں کارکنوں کے مارچ میں شرکت کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ینگون میں مظاہروں کے دوران ایک موقع پر دو پولیس اہل کار ان کے سامنے آ گئے اور اپنی بندوقوں کی نوک میری جانب کر نے کے بعد کہا کہ اگر آپ مظاہرے میں شامل نہیں ہیں تو یہاں سے چلے جائیں، ہم آپ کو گولی مارنا نہیں چاہتے۔ اس واقعہ نے مجھے بہت خوف زدہ کر دیا۔
یہ ایک خوفناک تجربہ تھا۔
ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے میراٹ کیو تھو نے کہا کہ وہ ایک دوست کے اپارٹمنٹ میں تھے۔ انہیں باہر گرنیڈ پھٹنے اور گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ گولیاں اپارٹمنٹ کی دیوار سے بھی ٹکرا رہی تھیں۔ اگر ہم بالکونی میں ہوتے تو یقیناً کسی گولی کا نشانہ بن جاتے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اور موقع پر، میانمار کی فوج کا 77 واں لائٹ انفنٹری ڈویژن بھی سڑکوں پر آ گیا۔ یہ وہی بدنام ڈویژن تھا جس کا تعلق ملک میں سابقہ بغاوتوں کے دوران تشدد کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس پر 2007 میں مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
میراٹ کیو تھو نے بالآخر مختلف جگہوں پر چھپتے ہوئے ینگون چھوڑ دیا۔ 5 اپریل کو، فوج نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ وہ اس وقت ایک سرحدی دیہات میں چھپے ہوئے تھے جس کے آس پاس فوجی جنگی طیارے فضائی حملے کر رہے تھے۔
میراٹ بتاتے ہیں کہ ان حملوں کی وجہ سے پورے گاؤں کو نقل مکانی کرنی پڑی اور اپنی جان بچانے کے لیے جنگل میں پناہ لینی پڑی۔ یہ ایک انتہائی اذیت ناک واقعہ تھا۔
میرٹ کیو تھو اسپین کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے سب سے پہلے فرینکفرٹ میں رک کر جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یورپی یونین کے ضوابط کے تحت انہیں انکار کر دیا گیا۔
میراٹ کیو تھو کو 38 روز تک فرینکفرٹ ایئرپورٹ کے حراستی مرکز میں رکھا گیا جہاں ان کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ کووڈ-19 کی پابندیوں کی وجہ سے، "میں لوگوں سے بات بھی نہیں کر سکتا تھا،"
آخرکار انہیں رہائی مل گئی اور وہ یکم جون کو اسپین پہنچ گئے۔
اگرچہ اب وہ محفوظ ہیں لیکن انہیں اپنا ملک چھوڑنے کا پچھتاوا بھی ہے۔
انہوں نے کہ اب میں آزادی سے باہر جا سکتا ہوں، کافی پی سکتا ہوں، خریداری کرنے جا سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اس دوران یہ خیال آتا ہے کہ میرے ملک میں بہت سارے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ وہ مر رہے ہیں۔ لیکن میں کچھ نہیں کر رہا ہوں؛ میں خود کوبہت قصوروار محسوس کرتا ہوں۔
میرات کیو تھو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر میانمار کی سنگین صورت حال کے بارے میں حقائق بتانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فیس بک پر ان کی فالونگ 495،000 سے زیادہ ہے۔
میرٹ کیو تھو نے کہا، جب تک کہ ڈکٹیٹر، من آنگ ہلاینگ، اقتدار میں رہتے ہیں، میں واپس نہیں جاسکتا۔ "میں ہمیشہ کے لئے مفرور ہوں۔"
نومبر 2020 میں انتخابی نتائج کو متنازع قرار دینے اور ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی سمیت حکومتی عہدیداروں کو جیل بھیجنے کے بعد، جنرل من آنگ ہلاینگ مطلق العنان حکمران بن گئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں میانمار کی نسلی اقلیتوں کے خلاف زیادتیوں کے واقعات پر امریکہ اور برطانیہ نے جنرل کے خلاف پابندیوں کا اطلاق کیا ہے۔