رسائی کے لنکس

میانمار: سیکیورٹی فورسز کی بھاری ہتھیاروں سے کارروائی، مزید 80 مظاہرین ہلاک


شہر ینگون میں مظاہریں کے خلاف کاروائی کے دوران ایک منظر
شہر ینگون میں مظاہریں کے خلاف کاروائی کے دوران ایک منظر

میانمار میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہفتے کے اختتام پر مزید 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ، عینی شاہدین اور سیاسی قیدیوں کی ہمدرد تنظیم اے اے پی پی کے مطابق یہ ہلاکتیں میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون سے 65 کلومیٹر دور شہر باگو میں جمعرات اور جمعے کے دوران ہوئیں۔

میانمار کی فوج نے جمہوری حکومت کےخلاف بغاوت کرتے ہوئے یکم فروری کو آن سانگ سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور انہیں اور کئی دوسرے رہنماوں کو گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق میانمار کی سیکیورٹی فورسز نے باگو شہر میں مظاہرین کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور زخمیوں کو طبی امداد بھی فراہم نہیں کی گئی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز تشدد کا سلسلہ ختم کر کے زخمیوں کو علاج معالجے کی اجازت دیں۔

خانہ جنگی کے آثار

دریں اثنا امریکی اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے اگر صورتِ حال یہی رہی تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 70 برسوں سے زائد عرصے سے میانمار کو شورش کا سامنا رہا ہے۔ ایک ملک جو نسلی اور گروہی بنیادوں پر منقسم رہا ہے وہاں کبھی ایسے حالات نہیں ہوئے جیسے اب نظر آرہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ کروڑ 40 لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں لوگ جمہوریت کی بحالی کی خاطر یکجا ہو رہے ہیں۔ اس دوران 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور فوجی جنتا کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے مغربی حصوں میں لوگ گھروں میں دستی بم بناکر سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں تو دوسری طرف کئی افراد معزول جمہوری رہنماؤں کی اس سوچ کی حمایت کر رہے ہیں کہ ایک وفاقی فوج بنائی جائے جو فوجی جنتا کا مقابلہ کر سکے۔

رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی میانمار کے لیے نمائندہ خصوصی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک بہت بڑی خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے اور خون ریزی قریب دکھائی دے رہی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے میانمار کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے جن میں اس کی اربوں ڈالرز کی ہیرے جواہرات کی صنعت بھی شامل ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں میانمار کی فوجی جنتا پر زور دیا تھا کہ مارشل لا کو ختم کرے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔

XS
SM
MD
LG