چار جولائی امریکہ میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہاں پاکستان کی طرح گلی محلے جھنڈیوں سے سجانے کی روایت تو نہیں مگر اکثر شہری ایسے لباس پہن کر، جن پر سرخ و سفید دھاریاں ہوں یا امریکی پرچم بنے ہوں، اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ جشن آزادی منانے کے لئے آتش بازی اور بار بی کیو پارٹیز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
امریکہ کو عام طور پر تارکین وطن کا ملک کہا جاتا ہے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے یہ تو میں نہیں جانتی لیکن یہ اک حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اتنے تارکین وطن نہیں، جتنے امریکہ میں بستے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ایسے تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد بستے ہیں جو کسی اور ملک میں پیدا ہوئے۔
امریکہ میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زمین کو ایک بہتر مستقبل کی خاطر چھوڑنے کا کڑا فیصلہ کر کے یہاں آئے۔
ان کی آنکھوں میں کبھی اپنے والدین، بھائی بہن، دوست، یار، محلے کو یاد کر کے نمی آ جاتی ہے تو کبھی 'امیریکن ڈریم' حاصل کرنے کی چمک۔
بہت سے تارکین وطن یہاں آ کر کچھ حاصل کرنے سے پہلے ایک کٹھن وقت گزارتے ہیں۔
یہاں آنے والا ہر کوئی مقدر کا سکندر تو نہیں بن پاتا، لیکن یہاں چھوٹی سے چھوٹی ملازمت کرنے والا بھی اسی عزت کا حقدار ہوتا ہے جتنا کوئی وزیر یا مشیر اور یہاں رہنے والے پاکستانی اس حقیقت کو بخوبی جانتے بھی ہیں اور اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
یہاں محفلوں میں جب میں کسی پاکستانی دوست کو یہ کہتے سنتی ہوں کہ آپ پاکستان سے ایک پاکستانی کو تو نکال سکتے ہیں لیکن ایک پاکستانی سے پاکستان کو نہیں، تو اکثر سوچتی ہوں کہ دوہری شہریت رکھنے والے یہ لوگ اب پاکستانی بھی ہیں یا صرف امریکی؟ دونوں ہیں یا کچھ بھی نہیں؟ یہ چار جولائی زیادہ جذبے سے مناتے ہوں گے یا 14 اگست؟
کچھ ایسے ہی سوالوں کی گتھی سلجھانے میں تین ایسے پاکستانی نژاد امریکیوں کے پاس گئی جو ایک طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ جنہوں نے امریکہ کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے مگر اس ملک کو بھی فراموش نہیں کر پائے جہاں وہ پلے بڑھے۔
عامر رضوی پاکستان سے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹر بننے کے بعد مزید تعلیم کے لئے 1995 میں امریکہ آئے۔ قسمت نے کچھ ایسی راہ بنائی کہ ریزیڈنسی کے بعد نیویارک میں اونکولوجی ریسرچ کے ایک ادارے سے جڑ گئے۔ کینسر کے موذی مرض پر قابو پانے کی کوششوں میں شامل ہونے میں کچھ اچھوتا کرنے کا احساس بھی تھا اور انسانی خدمت کا جذبہ بھی۔ بس پھر ایک کے بعد ایک راستہ بنتا گیا اور وہ امریکہ کی ایک سے بڑھ کر ایک فارما کمپنیز میں کام کے دوران کینسر کے علاج کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور دوائیوں کی ایجاد میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
ڈاکٹرعامر رضوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کلینکل ریسرچ کے اتنے مواقع نہیں۔ اس لئے اگر وہ آج وہاں ہوتے تو شاید بطور ڈاکٹر ہی کام کررہے ہوتے۔ ان کا کہنا ہے بچپن میں یہ کہاوت تو سنی تھی کہ محنت میں عظمت ہے، لیکن اس کا عملی نمونہ یہاں آ کر دیکھنے کو ملا۔
صائمہ عادل سطوت امریکہ میں پروفیسر ہیں۔ وہ مصنف بھی ہیں اور 'امیریکن مسلم: این امیگرنٹس جرنی' کے نام سے کتاب بھی تحریر کر چکی ہیں۔
یہاں آنے سے قبل پاکستان میں ڈی ایچ اے کالج میں انگریزی ادب پڑھاتی تھیں۔۔سال 2002 میں شادی کے بعد انہیں شکاگو منتقل ہونا پڑا جہاں ان کے شوہر بلال سطوت ریزیڈنٹ ڈاکٹر تھے۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد انہوں نے پٹس برگ شہر کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ 15 سال وہاں گزارنے کے بعد آج وہ اپنی دو بیٹیوں اور شوہر کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ میں مقیم ہیں۔
صائمہ کہتی ہیں امریکہ آنے کے بعد اچھا برا، غم اور خوشی ہر طرح کا وقت دیکھا۔ کبھی اپنے والدین کی یاد نے اداس کیا تو کبھی نئے مواقعوں نے پرجوش۔ کبھی اچھے فیصلے کئے تو کچھ کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہرحادثہ جو گزرا اپنی جگہ سبق تھا۔
امریکہ کو لینڈ آف اوپرچیونیٹیز یعنی مواقعوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ صائمہ اپنی کالج ٹیچنگ کی ملازمت تو چھوڑ آئیں تھیں لیکن چونکہ حساس تھیں اور معاشرتی رویوں پر گہری نگاہ رکھتی تھیں اس لئے یہاں رہنے والے تارکین وطن بالخصوص مسلمان اقلیتوں کی زندگی کے بارے میں تحقیق کرتی رہیں اور اب انہی موضوعات کو بطور کورسز یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔
صائمہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ پاکستان رہ جاتیں تو ان کا سپورٹ سسٹم مضبوط ہوتا۔ بچوں کی تربیت میں والدین مددگار ثابت ہوتے۔ تنہا یہ سب کرنے کے لئے دوہری محنت کرنا پڑی مگر جس قسم کے تجربات انہیں امریکہ میں حاصل ہوئے وہ اپنی نوعیت میں انوکھے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کیونکہ رواج نہیں اس لئے وہ کبھی مسجد نہیں گئیں، لیکن پٹس برگ میں انہیں مقامی مسجد کا پریزیڈنٹ بننے کا موقع ملا۔
دوسری جانب ندیم وامق ہیں جن کا کہنا ہے کہ انسان کا رزق جہاں لکھا ہوتا ہے وہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور وہ بھی اسی طرح یہاں پہنچ گئے۔
ندیم وامق نے 1992 میں کراچی کے حالات سے پریشان ہو کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا قدم نیویارک میں کیا پڑا، بس اسی شہر کے ہو گئے۔
ندیم 29 سال پہلے کی کہانی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وقت نہ ہاتھ میں زیادہ پیسے تھے نہ پاکستانی تعلیمی قابلیت یہاں کی قابلیت کے برابر۔ مشکل وقت اور انتھک محنت کے بعد زندگی بالآخر بن ہی گئی یا پھر یوں کہہ لیں، محنت اور لگن سے قسمت بدل گئی۔ ندیم امریکہ میں فنانشل کنسلٹنٹ ہیں اور اپنی ذاتی فرم چلاتے ہیں۔
ندیم کہتے ہیں کہ اسلام جو سکھاتا ہے اس کا عملی مظاہرہ انہوں نے یہاں آ کر دیکھا۔ غلط بات نہ کرنا، کسی کی پیچھے اس کی برائی نہ کرنا، دوسروں کو نقصان پہچانے کی بجائے ان کی مدد کرنا، یہ ساری عادتیں انہوں نے امریکی معاشرے میں دیکھیں اور پھر اپنالیں۔
امریکی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس پر ڈاکٹر عامر رضوی فوراً کہتے ہیں کہ 'آپ سچ بولیں، لوگوں سے انصاف کریں، خوش اخلاقی سے پیش آئیں، سب کی عزت کریں اور سب کی مدد کریں'۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ یہاں استاد ہوں، معالج ہوں یا کسی کے باس، کسی کی تضحیک نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹرز اپنے مریضوں اور جونئیرز کی عزت کرتے ہیں۔ ملازم اپنے سینیئر تک رسائی رکھتا ہے۔ طالب علم استاد سے خوف نہیں محسوس کرتا، اسی لئے یہاں بچے اسکول جاتے ہوئے منہ بھی نہیں بسورتے۔
یہ ساری خوبیاں ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ امریکہ میں آئے روز نسلی تعصبات کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عامر کو 25 سال سے زائد کے عرصے میں جنوبی ایشیائی نسل سے ہونے کی وجہ سے یا اپنے دیسی لب و لہجے کے باوجود کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کو کینسر ریسرچ کے اہم پروجیکٹس ملنے میں اور ان کی ترقی میں بہت سے سفید فام سینئیرز شامل رہے ہیں۔ 'اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اس معاشرے میں محنت کرنے والے کی قدر کی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے کی بجائے محنت کرنے والے کو آگے بڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ ساتھیوں کا یہ بہترین رویہ دیکھ کر انہوں نے بھی اسے اپنے مزاج اور زندگی کا حصہ بنا لیا۔
نسلی تعصب پر بات کرتے ہوئے صائمہ عادل سطوت کہتی ہیں کہ اس وقت امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے حقوق کی تحریک چل رہی ہے تو نائن الیون کے بعد یہاں مسلمانوں نے بھی ایک بہت مشکل وقت گزارا۔ بڑے تو بڑے بچے بھی اکثر اسکولوں میں چبھتے سوالوں کا شکار بنتے تھے۔
ان کہنا ہے کہ یہ معاشرہ ہرگز پرفیکٹ نہیں ہے لیکن یہ ہمیں اسے بہتر بنانے کی گنجائش اور حق دیتا ہے اور صائمہ کے نزدیک امریکی ہونے کا مطلب یہی ہے کہ اس معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے جمہوری کوششیں کی جاتی رہیں۔ اس مقصد کے لئے صائمہ کمیونٹی انگیجمنٹ اور ڈائیلاگ پر یقین رکھتی ہیں۔
اسی لئے اس موضوع پر انہوں نے اپنی یادداشت تحریر کی۔ مسلم اقلیت سے جڑے موضوعات یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ عوامی بہبود کے پروگرامز کو سپورٹ کرتی ہیں۔ کئی نان پرافٹس اور بین المذاہب نیٹ ورکس کی بورڈ ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ صائمہ کہتی ہیں، 'اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، اسے کچھ واپس لوٹانے کا یہ بہترین طریقہ ہے'۔
وامق ندیم سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ دل اور جان سے امریکی ہو چکے ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ جو بات انہیں پسند آئی، وہ یہ ہے کہ یہاں ایک نظام ہے۔ قانون ہے جس سے کوئی بالاتر نہیں۔ سب ہی کو قانون پر عمل کرنا ہے۔
مگر وامق ہوں، صائمہ ہوں یا پھر ڈاکٹر عامر۔۔۔ کیا کریں کہ پاکستان کی محبت بھی دل سے نہیں جاتی۔ گھر تو اب امریکہ ہی ہے مگر دل کا کچھ حصہ پاکستان میں بھی اٹکا ہے۔ پاکستان میں غربت، کرپشن، صحت اور تعلیم پر حکومتی عدم توجہی پر دل کڑھتا ہے اور تینوں ہی اپنے اپنے طور پر ان مقاصد کے فروغ کو سپورٹ کرتے ہیں۔
چلتے چلتے میں نے پوچھا۔۔۔۔ اچھا تو پھر کل اگر امریکہ اور پاکستان کا کرکٹ میچ یا بیس بال میچ ہوا تو کس کا ساتھ دیں گے؟ وامق تو امریکہ کا نام لینے میں ایک لمحہ بھی نہیں ہچکچائے۔ صائمہ کے گھر میں تو اس بات پر بحث ہی چھڑ گئی۔ بچیاں تو یہیں پلی بڑھی ہیں، وہ تو فوراً امریکہ کی طرف ہو گئیں جب کہ تھوڑا تردد کا شکار رہنے کے بعد صائمہ نے بھی امریکہ کے لئے تالیاں بجانے کا اعلان کر دیا۔
اور ڈاکٹر عامر رضوی؟ انہوں نے اس گگلی کو مہارت سے کھیلتے ہوئے کہا کہ 'بھئی کرکٹ میچ ہوا تو پاکستان کا ساتھ دیں گے اور بیس بال ہوا تو امریکہ کا'.
یقیناً سب کو خوش رکھنے کا یہ گن بھی انہوں نے امریکہ آکر ہی سیکھا ہو گا۔