امریکی کانگریس نے نوبیل انعام یافتہ اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی پاکستانی نوجوان خاتون ملالہ یوسفزئی کے نام پر ایک بل پاس کیا ہے۔ اس بل کے تحت امریکہ کی طرف سے پاکستانی خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے میرٹ اور ضرورت کے مطابق دیے جانے والے وظائف کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
امریکی سینیٹ نے اس بل کو یکم جنوری کو منظور کیا جب کہ ایوانِ نمائندگان نے اسے گزشتہ سال مارچ میں پاس کیا تھا۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اب اس بل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے لیے وائٹ ہاؤس بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ برائے بین الاقوامی امداد 'یو ایس اے آئی ڈی' کے نئے قانون کے مطابق اب سال 2020 سے 2022 کے اعلیٰ تعلیم کے نصف وظائف پاکستانی خواتین کو دے گا۔ یہ وظائف خواتین کو مروجہ اہلیت کے قواعد کے تحت مختلف تعلیمی شعبوں میں دیے جائیں گے۔
طریقہ کار کے تحت "یو ایس اے آئی ڈی" پاکستان کے نجی سیکٹر کی سرمایہ کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ میں بسنے والے پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ مل کر بھی کام کرے گا تاکہ اس نئے قانون کے مطابق ملک میں تعلیم تک رسائی کو بہتر اور وسیع تر بنایا جا سکے۔
امریکی ادارہ برائے امداد کانگریس کو ہر سال آگاہ کرے گا کہ اس نئے قانوں کے تحت کتنے وظائف دیے گئے۔ اس سلسلے میں ادارہ دیے گئے وظائف کی صنفی، شعبوں اور تعلیمی ڈگری کے حوالے تفصیلات بھی فراہم کرے گا۔
کانگریس نے بل کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2010 سے اب تک یو ایس اے آئی ڈی نے چھ ہزار سے زیادہ نوجوان خواتین کو اعلی تعلیم کے لیے وظائف دیے ہیں۔ اور اس بل کے بعد یہ تعداد بڑھا دی جائے گی۔
عالمی اقتصادی فورم نے صنفی مساوات اور تعلیمی شعبے میں خواتین کی کامیابی کے حوالے سے پاکستان کو انتہائی کم درجے کے ممالک میں شامل کیا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق محض نو فی صد پاکستانی خواتین اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ہر سال کالجوں میں داخلہ لیتی ہیں، جب کہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40 فیصد ہے۔ 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال چھ فی صد خواتین اعلی تعلیم کی ڈگری حاصل کر پاتی ہیں۔
یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی کئی سال سے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں
انہوں نے 2013 میں ملالہ فنڈ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جو لڑکیوں کے لیے 12 سال تک مفت تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستانی طالبان نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر ملالہ پر 2012 میں اسکول سے واپسی پر ایک شدید حملہ کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور وہیں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے برطانیہ ہی میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔