رسائی کے لنکس

سعودی عرب: عید الاضحیٰ کے موقع پر 85 پاکستانی قیدیوں کی سزا معاف


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے تاحال 579 افراد کی واپسی ہوئی ہے۔(فائل فوٹو)
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے تاحال 579 افراد کی واپسی ہوئی ہے۔(فائل فوٹو)

سعودی عرب نے عید الاضحیٰ کے موقعے پر 85 پاکستانی قیدیوں کی سزا کی معافی کا فیصلہ کیا ہے جنہیں وطن واپس لانے کے لیے پاکستان کی حکومت خصوصی طیارہ ریاض بھیجے گی۔

وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سعودی عرب کی جانب سے مزید قیدیوں کی رہائی کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

فروری 2019 میں سعودی ولی عہد محمد کے دورہٴ پاکستان کے موقعے پر 2100 پاکستانی قیدیوں کی معافی کے اعلان کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے سوا جتنے بھی پاکستانی قیدی ہیں انہیں واپس لانے کا کام جاری ہے۔

وزیرِ اطلاعات کے مطابق اب تک سیکڑوں قیدی رہا ہو کر وطن واپس آ چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے تاحال 579 افراد کی واپسی ہوئی ہے۔ البتہ قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'جسٹس پراجیکٹ' ان حکومتی اعداد و شمار سے متفق نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے پبلک آؤٹ ریچ افسر محمد شعیب نے کہا کہ سعودی عرب سے قیدیوں کی واپسی کا عمل فروری 2019 میں ولی عہد محمد بن سلمان کے اعلان کے بعد سے شروع ہو گیا تھا تاہم تکنیکی وجوہ اور طریقۂ کار کا تعین نہ ہونے کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار رہا۔

کتنے پاکستانی وطن واپس آئے؟

اکتوبر 2019 میں وزارتِ سمندر پار پاکستانیوں کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمند پار پاکستانی و ترقیٴ انسانی وسائل کو مطلع کیا تھا کہ شاہی قانون کے تحت سعودی عرب نے 579 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ان 579 قیدیوں کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 2019 میں ہونے والے قیدیوں کی رہائی کے اعلان سے پہلے اپنی سزائیں مکمل کرکے واپس آ چکے تھے۔

رواں سال مئی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہٴ سعودی عرب کے دوران انسدادِ جرائم اور قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔

یہ معاہدہ طے پانے کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب کی جیلوں میں موجود 11 سو قیدیوں کو پاکستان واپس لایا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق صرف معمولی جرائم کے مرتکب افراد کو سعودی عرب سے پاکستان لایا جا رہا ہے اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کے معاملے کو بعد میں طے کیا جائے گا۔

سعودی عرب یا ایران کی پاکستان میں کوئی مداخلت نہیں: طاہر اشرفی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:43 0:00

جسٹس پراجیکٹ کے مطابق رواں سال مئی میں قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کے بعد سے اب تک 116 قیدی پاکستان لائے گئے ہیں جو اپنی قید کی بقیہ سزا یہاں پوری کریں گے۔

محمد شعیب کہتے ہیں کہ رواں سال مئی میں وزیرِ اعظم کے دورہٴ سعودی عرب کے موقعے پر دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی منتقلی کا معاہدہ طے پایا ہے اس لیے اب قیدیوں کی واپسی کا عمل زیادہ بہتر انداز میں انجام دیا جاسکے گا۔

اس وقت 9179 پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں قید ہیں جن میں سے 2495 سعودی عرب اور 1600 سو سے زائد متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں ہیں۔ ان قیدیوں میں درجنوں خواتین بھی شامل ہیں۔

وزارتِ سمندر پار پاکستانیوں سے دستیاب تفصیلات کے مطابق اگست 2018 سے دسمبر 2020 تک بیرونِ ممالک قید آٹھ ہزار 754 پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا ہے.

’والدہ کو سعودی عرب میں قید ہوئے چار سال ہوگئے‘

نارووال کے رہائشی محبوب کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے انہیں امید پیدا ہوئی ہے کہ چار سال سے سعودی عرب کی جیل میں قید ان کی والدہ کی واپسی ممکن ہوسکے گی اور وہ اپنی والدہ کو دیکھ پائیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت یا پاکستانی سفارت خانے نے تاحال ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی والدہ واپس پاکستان آ جائیں گی۔

محبوب نے بتایا نے بتایا کہ 17 مئی 2017 کو والدہ سیالکوٹ ایئر پورٹ سے سعودی عرب روانہ ہو رہی تھیں کہ گاؤں کی خاتون نے حلوے کا ایک ڈبہ دیا تھا جو بظاہر حلوہ ہی لگتا تھا لیکن اس کی آڑ میں والدہ کے سامان میں ہیروئن رکھی گئی تھی۔ جب والدہ جدہ ایئر پورٹ پہنچیں تو اس ڈبے میں سے ایک کلو ہیروئن برآمد ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خاتون کے خلاف کارروائی کی درخواست دی تاہم گرفتاری کے ایک ماہ کے بعد ہی وہ رہا ہوکر واپس آگئیں۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں منشیات رکھنے کے جرم میں سر قلم کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔

پاکستان سے ہر سال ہزاروں افراد روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب میں کام کرتی ہے.

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور وکیل ضیا احمد اعوان کہتے ہیں کہ ایسی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بیرونِ ملک روانگی کے عمل کی نگرانی کے نظام کو مؤثر بنانا ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG