پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے مجوزہ تین روزہ ’افغان امن کانفرنس‘ انعقاد سے ایک روز قبل مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغان امن کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہفتہ 17 جولائی سے پیر 19 جولائی تک ہونا تھا۔ البتہ اب یہ کانفرنس ملتوی کر دی گئی ہے اور اس کا انعقاد عید الاضحیٰ کے بعد ہو گا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 21 جولائی کو عید الاضحیٰ منائی جائے گئی۔
وزارتِ خارجہ کے جمعے کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ کانفرنس کی نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اسلام آباد نے کانفرنس کابل حکومت کی درخواست پر ملتوی کی ہے۔ البتہ افغان حکام کا اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان نے مجوزہ کانفرنس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا تھا۔
کانفرنس میں افغانستان کے متعدد حکومتی شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت کی گئی تھی۔
ایک روز قبل جمعرات کو وزارتِ خارجہ نے ایسے رپورٹس کو مسترد کر دیا تھا کہ مجوزہ کانفرنس ملتوی ہو سکتی ہے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ کانفرنس سے افغانستان کے امن عمل کو مزید تیز کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
پاکستان کی افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام کے لیے مجوزہ کانفرنس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کو ٹیلی فون کرکے شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ افغانستان میں استحکام کے لیے ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں حامد کرزئی سمیت اعلیٰ افغان قیادت کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں عروج پر ہیں اور طالبان افغانستان کے 85 فی صد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
بدھ کو طالبان نے پاکستان کی سرحد کے قریب اسپین بولدک کے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان کے حملے کو ناکام بنا دیا ہے اور علاقہ بدستور افغان فورسز کے کنٹرول میں ہے۔
اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کی ڈائریکٹر اور افغان امور کی ماہر امینہ خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے اچانک افغانستان سے جانے کے فیصلے نے خطے کے تمام ممالک کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک نے طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی شروع کر دی ہے۔
امینہ خان کے بقول موجودہ حالات میں افغانستان میں اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب تمام دھڑوں کو حکومت سازی میں مناسب نمائندگی ملے۔
سینئر تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں شدید لڑائی جاری ہے۔ لیکن طالبان ابھی تک کہیں بھی اپنا مستقل کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے کسی صوبائی ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ لڑائی کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہو رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنے ہی ملک میں دربدر ہو گئے ہیں۔ عام لوگوں کی املاک تباہ ہوئی ہیں اور لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔