افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) پر طالبان کی فضائی مدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے تاہم پاکستان نے اس الزام کی تردید کر دی ہے۔
امر اللہ صالح نے سوشل میڈیا پر بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان ایئر فورس نے افغان فضائیہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان کو سرحدی گزرگاہ اسپن بولدک سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو اس کا ردِ عمل آئے گا۔
انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی فضائیہ بعض علاقوں میں طالبان کی حمایت بھی کر رہی ہے۔
افغان نائب صدر کے الزامات پر جمعے کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغان ایئر فورس کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ افغان نائب صدر کے اس طرح کے بیانات سے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
بیان کے مطابق افغانستان نے پاکستان کو چمن سیکٹر سے متصل اپنی حدود میں فضائی کارروائی کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق افغان حکومت کو اپنی سرزمین کے دفاع کا حق حاصل ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی چمن سرحد سے متصل افغان علاقے اسپن بولدک میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جھڑپوں کا آغاز بدھ سے ہوا تھا۔
طالبان نے اسپن بولدک میں افغان پرچم کی جگہ اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔ البتہ افغان حکومت نے جمعرات کو اس قبضے کو چھڑانے کا دعویٰ کیا۔
افغان نائب صدر کی جانب سے پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کے الزامات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اسلام آباد میں ہفتے کو سرکردہ افغان رہنماؤں کی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
جمعرات کو ہی پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی سے فون پر رابطہ کر کے انہیں مذکورہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نذر الاسلام کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں حامد کرزئی کے علاوہ افغان رہنما صلاح الدین ربانی، ڈاکٹر عمر زخیلوال، حاجی محقق، گل بدین حکمت یار، احمد ولی مسعود، کریم خلیلی، محمد یونس قانونی، عطا محمد نور، میر ویس یاسینی کی شرکت متوقع ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ الزام تراشی پر مبنی بیانات دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفارت کار جلیل عباس جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جس طرح کے الزامات افغان نائب صدر نے پاکستان پر عائد کیے وہ اتنی اہم پوزیشن پر موجود ذمہ دار شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔
ان کے بقول پاکستان کے اشرف غنی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن غنی کابینہ میں ایک یا دو ایسے لوگ ہیں جن کا ایجنڈا اپنی ہی حکومت سے مختلف ہے۔
سابق سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے تمام دھڑوں کو اسلام اباد میں اکٹھا کرنے کے حوالے سے اچھا قدم اٹھایا گیا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس کے مستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
امراللہ صالح کے الزامات سے متعلق سینئر افغان تجزیہ کار عصمت قانع کا کہنا ہے کہ الزام تراشی کرنا آسان کام ہے مگر ایسے الزامات کے مقابلے میں شواہد پیش کرنا مشکل ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ افغانستان کے اندر کوئی فضائی کارروائی کرے۔ کیوں کہ ان کے بقول یہ بین الاقوامی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی تصور ہو گی۔
امراللہ صالح کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے افغانستان اپنی ہر ناکامی کو پاکستان میں تلاش کرتا ہے۔ وہ اس الزام کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔
عصمت قانع کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ طالبان اپنا دائرہ کار مزید وسیع کر رہے ہیں۔ خون ریزی کے باعث ہزاروں کی تعداد میں لوگ در بدر ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں عروج پر ہیں۔ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے طالبان تقریباً 20 صوبوں کے ہیڈکوارٹرز کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کو ابھی تک کسی بھی نمایاں جگہ کا کنٹرول حاصل نہیں ہوا اور بہت جلد وہ تمام علاقے طالبان کے قبضے سے دوبارہ واگزار کرا لیں گے۔