طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی، ملک کے نصف سے زیادہ اضلاع پر قبضے اور کئی صوبائی ہیڈکوارٹرز کے محاصروں سے افغانستان میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے اور بہت سے لوگ اپنی زندگیاں بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کئی افغان شہری دوسرے ملکوں، خاص طور پر ایران اور ترکی کے راستے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر روزافغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ایران کے راستے ترکی داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ ترکی میں وہ زیادہ دیر نہیں رکتے، کیونکہ ان کی اگلی منزل یورپ کا کوئی ملک ہوتا ہے۔
یورپی ملکوں سے ملنے والی اطلاعات پر مبنی وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ملک افغان مہاجرین کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، بلکہ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ان کی آمد کو روکا جائے۔
دشوار گزار راستوں سے گزرتے اور مشکلات جھیلتے ہوئے اوسطاً 2000 افغان باشندے روزانہ ترکی پہنچ رہے ہیں۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ جیسے جیسے افغانستان میں طالبان مزید علاقوں پر قابض ہوں گے، مہاجرین کی تعداد میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا۔
ان دنوں طالبان نے افغانستان کے جنوب اور مغربی علاقے کے تین اہم شہروں پر حملہ کیا ہوا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کا ملک سے انخلا شروع ہونے کے بعد سے حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان نے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہونے کی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ستمبر تک نیٹو کی تمام افواج ملک چھوڑ کر جا چکی ہوں گی۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی، جب کہ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ دفاع سے تعلق رکھنے والے ایک نگراں ادارے نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان کو ایک بحرانی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تارکین وطن سے متعلق امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ایران اور ترکی جانے والے افغان مہاجرین نے ملک چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے، ان پر طالبان کے سخت گیر طرز حکمرانی کا خوف طاری ہے۔
ترکی کی سرحد پر پہنچنے والے اکثر افغان مرد تنہا ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ وہ یورپ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے خواہش مند ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ بعد میں اپنے اہل خاندان کو بھیاپنے پاس بلا سکیں گے۔
ادھر،یورپی ملکوں کے رہنما تارکین وطن کے نئے بحران سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں تجویز کیا گیا ہے کہ پناہ کے خواہش مند افغان مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے، ترکی کے ساتھ طویل مدتی سمجھوتہ کیا جائے۔ سال 2016ء سے پہلے ترکی کے ساتھ اس قسم کا ایک معاہدہ ہو چکا ہے، لیکن اس کے لیے یورپی ممالک ترکی کو اربوں ڈالر ادا کرتے رہے ہیں۔ اس رقم سے ترکی پہنچنے والے مہاجرین کی رہائش کا بہتر بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آبادکاری کے باضابطہ منصوبوں اور قانونی طریقے سے ہجرت کی راہ اپنانے میں معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
اٹلی کے ایک امدادی ادارے کے سربراہ، ڈینیل البانیز نے کہا ہے کہ ''سال 2016 کے سمجھوتے کے نتیجے میں یورپ پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی۔ سال 2015ء میں یونان آنے والے تارکین وطن کی تعداد آٹھ لاکھ اکسٹھ ہزار چھ سو تیس (861630) تھی جو 2016ء میں کم ہو کرچھتیس ہزار تین سو دس رہ گئی تھی''۔
یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد تارکین وطن کا سنگین بحران پیدا ہوسکتا ہے، اور لگتا ہے کہ طالبان کے خوف سے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی کافی تعداد تارکین وطن کی صفوں میں شامل ہوجائے گی۔
سال 2015 اور 2016 کے دوران مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 10 لاکھ تھی، جن میں سے زیادہ کا تعلق شام، افغانستان اور افریقہ کے صحرائی علاقے سے تھا۔
سن 2015 میں پناہ گزینوں سے متعلق جرمنی کی پالیسی کو 'اوپن ڈور پالیسی' کا نام دیا جاتا تھا۔ گزشتہ ماہ ایک اخباری کانفرنس میں جرمن چانسلر آنگلا مرکل سے سوال کیا گیا کہ آیا جرمنی افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہے گا، جس پر ان کا جواب تھا کہ ''آنے والے تمام افراد کو ملک میں جگہ دے کر بھی ہم اس طرح کے مسئلے کو حل نہیں کر پائیں گے''۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ ''بہتر یہ ہو گا کی سیاسی مذاکرات کے ذریعے وہ اپنے ملک میں ہی مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں''۔
یونان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے ملک میں افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ترکی کے راستے وہاں پہنچے ہیں۔
گزشتہ ہفتے آسٹریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ سلووانیہ اور ہنگری کے ساتھ اپنی سرحد پر مزید فوجی تعینات کرے گا، تاکہ کوئی فرد غیر قانونی طور پر ملک میں داخل نہ ہو سکے۔ ملک کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیاں غیر مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سال آسٹریا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے پندرہ ہزار سات سو اڑسٹھ (15768)افراد کو حراست میں لیا گیا، جب کہ 2020 میں گرفتار کیے گئے ایسے افراد کی تعداد اکیس ہزار سات سو (21700) تھی۔
ادھر فن لینڈ، سویڈن اور ناروے نے افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے معاملے کے حوالے سے عبوری نرمی برتنے کا اعلان کیا۔
اطلاعات کے مطابق، ترکی میں پہلے ہی اندازاً دو لاکھ سےچھ لاکھ تک افغان مہاجرین موجود ہیں، جب کہ وہاں رہائش پذیر شامی مہاجرین کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔