امریکہ میں سال دو ہزار بیس میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق ملک میں سفید فام آبادی گھٹ رہی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکی معاشرہ نسلی طور پر مزید متنوع ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ میں مردم شماری کے بیورو کے تحت ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری کے اس جائزے سے نہ صرف گزشتہ ایک دہائی میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا پتا چلتا ہے، بلکہ یہ مستقبل کی آبادیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
مردم شماری بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی میں ملک کی آبادی میں محض سات اعشاریہ چار فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 33 کروڑ 14 لاکھ (تین سو اکتیس اعشاریہ چار ملین) ہو گئی ہے۔
وآئس آف امریکہ کی خبر کے مطابق1719ء سے جب سے ملک میں مردم شماری کا آغاز ہوا ہے کسی بھی دہائی میں آبادی میں یہ کم ترین اضافہ ہے۔ اس سے پہلے صرف 1930ء کی دہائی میں جب امریکہ گریٹ ڈپریشن کی لپیٹ میں تھا آبادی میں اتنا کم اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی طور پر تقسیم کا شکار ہے یہ اعداد و شمار ملک میں نمائندگی کے موضوع پر گرما گرم بحث چھیڑ سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف اس بات کی نشاندہی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں کہ سال 2022ء کے انتخابات میں کونسی سیاسی جماعت فائدے میں رہ سکتی ہے اور کسے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے، بلکہ یہ پتہ لگانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کہ آبادی کے تبدیل ہوتے منظرنامے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں ملک میں ووٹرز کا رجحان کیا ہوگا۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا بھی تعین کریں گے کہ وفاقی اخراجات کی مد میں ڈیڑھ کھرب ڈالرز کس طرح تقسیم کئے جائیں گے۔
وآئس آف امریکہ کے کین بریڈیمئر کے مطابق شماریاتی سروے میں سامنے آیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں ملک کی نسلی اور قومی ہیئت تبدیل ہوتی رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ملک کی جنوبی اور مغربی ریاستوں کے شہری علاقوں میں منتقل ہوتی رہی۔ آبادی میں کمی کی یہ بھی ایک وجہ ٹھہری کہ امریکیوں نے مختصر کمیونیٹیز میں رہنے کو ترجیح نہیں دی۔
آبادیاتی سروے کے مطابق 20 کروڑ سے زائد آبادی کیساتھ سفید فام افراد اب بھی ملک میں اکثریت رکھتے ہیں۔ تاہم، 2010ء کے مقابلے میں ان کی آبادی کی شرح میں آٹھ اعشاریہ چھ فیصد کمی آئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا گروہ ہسپانوی یا لاطینی نژاد افراد پر مبنی ہے جن کی آبادی باسٹھ اعشاریہ ایک ملین یعنی چھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ملک میں ہسپانوی یا لاطینی آبادی تیئس فیصد بڑھی ہے۔
ایسے افراد کی تعداد جو اپنی شناخت دو یا دو سے زیادہ نسلی ورثوں سے کرتے ہیں، تینتیس اعشاریہ آٹھ ملین یعنی تین کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ تناسب کے حوالے سے یہ اضافہ گزشتہ دس سالوں میں دو سو چھہتر فیصد بنتا ہے۔
افریقی نژاد امریکیوں کی تعداد چھیالیس اعشاریہ نو ملین یعنی ساڑھے چار
کروڑ سے زائد سامنے آئی ہے۔ تاہم، اگر ایسے سیاہ فام افراد کو بھی ان میں شامل کر لیا جائے جو کسی اور نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں تو یہ تعداد بڑھ کر اننچاس اعشاریہ نو فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
شماریاتی سروے کے مطابق ملک میں ایشیائی نژاد امریکیوں کی تعداد چوبیس ملین جبکہ نیٹو امریکن یا آبائی امریکی اور الاسکا نیٹوز کی آبادی نو اعشاریہ سات ملین بنتی ہے۔
کیا سفید فام امریکیوں کی اکثریت جاری رہے گی؟
آبادیات اور شماریات کے ماہرین کے مطابق سال 2045ء تک سفید فام افراد ملک میں اکثریت میں پائے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد وہ لاطینی، سیاہ فام، ایشیائی اور دیگر نسلوں کی آبادی میں اضافے کے باعث ممکنہ طور پر اپنی اکثریت کھو دیں گے۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس دہائی میں امریکی اقلیتوں میں آبادی میں اضافے کا نصف یا اس سے بھی زیادہ حصہ ہسپانوی نژاد افراد کے سر جاتا ہے۔
بڑے شہروں کی آبادی
آبادی کے لحاظ سے ملک کے دس بڑے شہروں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ اٹھاسی لاکھ آبادی کے ساتھ نیو یارک شہر بدستور سر فہرست ہے۔ ملک کے تمام دس بڑے شہروں کی آبادی پہلی بار دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جنوب مغربی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ (گیارہ اعشاریہ دو فیصد) ریکارڈ کیا گیا۔