افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں ملک چھوڑنے کی تصدیق کر دی ہے، تاہم یہ نہیں لکھا کہ وہ استعفی دے رہے ہیں، دوسری طرٖف ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اشرف غنی کے افغانستان چھوڑنے کا علم ان کے چند قریبی ساتھیوں کے سوا کسی کو نہیں تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغان صدر نے اپنے گنتی کے چند ساتھیوں کے ساتھ اتنی خاموشی سے صدارتی محل چھوڑا کہ طالبان کے ساتھ انتقال اقتدار کے لیے مذاکرات میں مصروف ان کے سیاسی ساتھیوں کو بھی پتا نہ چل سکا کہ وہ جلاوطنی اختیار کر رہے ہیں۔
اشرف غنی نے اپنی روانگی کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں آج ایک مشکل فیصلہ درپیش تھا، کہ وہ مسلح طالبان کا مقابلہ کرتے یا ملک چھوڑتے۔ ان کے پیغام کے مطابق اگر وہ ملک میں ٹہرتے تو لاتعداد لوگ مارے جاتے۔ کابل تباہ ہو جاتا اور وہاں رہنے والوں کو ایک سانحےاور المیے کا سامنا کرنا پڑتا'۔انہوں نے پیغام میں لکھا ہے کہ 'طالبان کو فتح تلوار اور بندوق کے زور پر ہوئی ہے اور اب طالبان عوام کی عزت، زندگیوں اور املاک کی سلامتی کے لیے جوابدہ ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے دل نہیں جیتے ہیں۔ تاریخ میں کبھی کسی کو طاقت کے ذریعے قانونی جواز حاصل نہیں ہواہے'۔
خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، کابل سے اشرف غنی کی روانگی بالکل ویسے ہی ہوئی، جیسے ان کی آمد ہوئی تھی، جب وہ صدر بننے کے لیے کابل کے ایئرپورٹ پر اترے تھے; یعنی تنہا اور اکیلے۔
صدر غنی کے طویل عرصے سے حریف اور ان کے ساتھ شریک اقتدار رہنے والے عبداللہ عبداللہ نے ان کی روانگی پر یہ تبصرہ کیا، "دارالحکومت کو تنہا چھوڑنے پر وہ خدا کو جواب دہ ہوں گے"۔
غنی کی منزل کا فوری طور پر کچھ علم نہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ تاجکستان چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپنی روانگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ ملک کو خون خرابے سے بچانے کے لیے کیا۔
رپورٹ کے مطابق، عبداللہ عبداللہ کی طرح ایک اور اہم سیاست دان اور سابق صدر حامد کرزئی بھی اشرف غنی کی روانگی سے لاعلم تھے۔
افغان ٹی وی 'طلوع' کے مالک سعد محسنی کے مطابق، ان رہنماوں کو امید تھی کہ غنی طالبان سے ایک پر امن انتقال اقتدار کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن سعد حسنی کے مطابق، اب انہوں نے کہا ہے کہ 'غنی نے انہیں دھوکہ دیا'۔
اتوار کو صبح سویرے کرزئی نے فیس بک پر ایک تصویر کے ساتھ ، جس میں ان کی تین بیٹیاں بھی ساتھ تھیں، کابل میں رہنے والوں کو یہ یقین دلایا کہ قیادت کے پاس ایک منصوبہ ہے اور وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔
اور اس کے چند ہی گھنٹوں کے بعد انہیں پتا چلا کہ صدارتی محل تو کب کا خالی ہو چکا ہے۔
امریکہ میں قائم ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فاؤںڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسز کے سینئر فیلو بل روگیو کہتے ہیں کہ افغانستان کو متحد کرنے میں ان کی ناقابلیت اور مغرب کے تعلیم یافتہ انٹلیکچوئلزکو اپنے دائیں بائیں جمع کرنے کی وجہ سے افغانستان کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ بل روگیو کے مطابق غنی نے مسائل کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا اور خود کو ایک ایسے وقت میں طاقت کے بروکرز سے مزید دور کر لیا جب مسائل سے نمٹنے اور افغان عوام کے لیے ان کی ضرورت تھی۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں،'غنی حکومت کی ناکامی کی وجہ ہر قیمت پر اختیارات کی مرکزیت پر اصرار اور مزید لوگوں کو اختیارت میں شامل کرنے سے سخت انکار تھا اور مزید یہ کہ طالبان کی شورش سے نمٹنے کے لیے ایک واضح حکمت علمی طے کرنے میں ان کی کمزوری اور نااہلیت تھی"۔
امریکہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر اور تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو حسین حقانی نے کہا ہے کہ،" اب نہ صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں، سفارت کاروں یا نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میں ردوبدل کی ضرورت ہے بلکہ اس بارے میں ازسرنو جائزہ لینا چاہیے کہ امریکہ دوسرے ملکوں اور تنازعات میں خود کو کس طرح شامل کرتا ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک غریب ملک میں ایک ایسی شورش سے لڑنے کے لیے جن کے پاس ٹیکنالوجی کی سمجھ بوجھ بہت معمولی تھی، ایک ہائی ٹیک آرمی تیار کی گئی۔ اس کے علاوہ مقامی بااثر شخصیات یا روایتی سیاست دانوں کی بجائے ٹینکوکریٹس پر بھروسا کرتے ہوئے گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغان سیاست کے بارے میں انتہائی غلط اندازے لگائے گئے۔ جس سے اضلاع سے متعلق آگہی اور انٹیلی جنس کو نقصان پہنچا۔
72 سالہ اشرف غنی نے دو ہزار دو میں کابل آنے سے قبل اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ بیرون ملک ایک طالب علم اور ایک استاد کی حیثیت سے گزارا تھا۔ وہ معاشیات کے مضمون میں اپنی قابلیت اور ورلڈ بینک کے ساتھ کام کے تجربے کو لے کر جب کابل پہنچے تھے، تو خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ افغانستان کی خراب ہوتی معیشت کے لئے ایک بہتر ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ وہ 2004 تک افغانستان کے وزیر خزانہ رہے۔ وہ کینسر کے مرض کا مقابلہ کر چکے ہیں۔
ناقدین کے مطابق، ان کا حکومت چلانے کا طریقہ ان کی ناکامی کا سبب بنا۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کے ایک سابق مشیر طارق فریادی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گرد تائید کرنے والوں کا ایک حلقہ جمع کر رکھا تھا، غنی اپنے ملک کے متعلق ان ہی کی پہنچائی ہوئی خبروں پر وہ بھروسہ کرتے تھے۔ کوئی ان کے سامنے سچائی بیان کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، انہوں نے فوج اور حکومت میں تجربہ کار لوگوں کو عہدوں سے ہٹا کر نا تجربہ کار لوگوں کو تعینات کر دیا تھا۔
2016 میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے غنی سے کہا کہ وہ ایک مضبوط ٹیم تیار کریں، جو طالبان سے مشکل مذاکرات کرنے کے قابل ہو، لیکن اے پی کی رپورٹ کے مطابق، یہ کوششیں زیاده کامیاب نہیں ہو سکیں۔
امریکہ میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس سال اپریل میں افغان صدر غنی کو افغان مسئلے کے سب فریقوں کے ساتھ مل کر چلنے کا مشورہ دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ انہیں اپنا دائرہ بڑھانا اور مزید لوگوں کو اس میں شامل کرنا پڑے گا ۔ بلنکن نے غنی کو لکھا تھا کہ 'اتحاد اور شمولیت، آنے والے مشکل کام کو کرنے کے لئے ناگزیر ہوگی'۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ 'آپ کی افواج کو امریکہ سے مالی امداد ملنے کا سلسلہ جاری بھی رہا، تو بھی امریکی فوج کے انخلا کے بعد مجھے خدشہ ہے، سیکیورٹی صورتحال خراب ہو سکتی ہے اور طالبان تیزی سے علاقائی کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں'۔
فاؤںڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسز کے سینئر فیلو بل روگیو کہتے ہیں کہ افغان حکومت کے ناکام ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن، "غنی ایسی شخصیت نہیں تھے جو اس مشکل اور سیاہ ترین وقت میں افغانستان کی قیادت کر سکتے"۔
(اس رپورٹ کا بیشتر مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)۔