رسائی کے لنکس

کابل کے میوزک اسکول کا مستقبل خطرے میں: 'یہاں ساز خاموش ہیں'


احمد سرمست نے 2010 میں 'افغاسنتان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک' کی بنیاد رکھی تھی۔
احمد سرمست نے 2010 میں 'افغاسنتان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک' کی بنیاد رکھی تھی۔

طالبان کی حکومت 2001 میں ختم ہوئی تو افغانستان میں ہر جانب تباہی پھیلی ہوئی تھی اور آسٹریلیا سے احمد سرمست افغانستان میں ایک مشن پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا مشن اپنے ملک میں فنِ موسیقی کی بحالی تھا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں احمد سرمست نے جو اسکول قائم کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ اس ادارے میں بے گھر اور یتیم بچے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کر رہے تھے جس کا مقصد کابل سے رخصت ہونے والی رونقیں بحال کرنا تھا۔

گزشتہ ہفتے جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے تو آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں احمد سرمست خوف کے عالم میں یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ بعدازاں ان کے موبائل فون پر کالز کا تانتا بندھ گیا۔

سرمست کے اسکول میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے والے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور ان کے کئی سوال ہیں۔ کیا یہ اسکول بند ہو جائے گا؟ کیا طالبان ایک بار پھر موسیقی پر پابندیاں لگا دیں گے؟ کیا ان کے قیمتی ساز محفوظ رہیں گے؟

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے احمد سرمست کا کہنا تھا کہ "کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کابل میں طالبان کی واپسی اتنی غیر متوقع تھی کہ یہ واقعہ اچانک ہونے والا ایک دھماکہ محسوس ہوتا ہے جس نے ہر کسی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔

احمد سرمست گزشتہ ماہ موسمِ گرما کی چھٹیاں گزارنے کابل سے آسٹریلیا گئے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس ادارے کے قیام اور اسے آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ 20 برس سے وہ کام کر رہے تھے اچانک اس کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

احمد سرمست اپنے میوزک اسکول میں زیرِ تربیت 350 طلبا اور 90 اساتذہ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان میں سے اکثر روپوش ہو چکے ہیں۔

ایسی اطلاعات تواتر سے آرہی ہیں کہ طالبان گھر گھر جا کر ماضی کے اپنے حریفوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ ایسی خبروں نے احمد سرمست کے ادارے سے وابستہ افراد کے خدشات کو بھی دو چند کر دیا ہے۔

احمد سرمست نے زوم کے ذریعے 'اے پی' کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ افغانستان میں موسیقی کے مستقبل، وہاں کی خواتین اور اپنے ادارے سے وابستہ افراد سے متعلق شدید تشویش کا شکار ہیں۔

احمد سرمست کے خدشات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ اپنے ادارے سے وابستہ اساتذہ و طلبا اور اپنے میوزک اسکول کے بارے میں زیادہ تفصیلات بتانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح ان سب کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

افغانستان میں میوزک اور فنونِ لطیفہ کے مستقبل کے بارے میں کچھ آثار تو ابھی سے نمایاں ہیں۔ وہاں کئی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز سے موسیقی نشر کرنا بند کر دی گئی ہے۔

البتہ یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ ایسا طالبان کے احکامات پر کیا جا رہا ہے یا نشریاتی ادارے مستقبل میں مسائل سے بچنے کے لیے پیش بندی کے طور پر ایسا کر رہے ہیں۔

کابل کے میوزک اسکول میں بے گھر یتیم بچوں کو موسیقی کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ (فائل فوٹو)
کابل کے میوزک اسکول میں بے گھر یتیم بچوں کو موسیقی کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ (فائل فوٹو)

سرمست کون ہیں؟

اٹھاون سالہ احمد سرمست افغانستان کے معروف موسیقار استاد سالم سرمست کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے دوران آسٹریلیا میں پناہ حاصل کی تھی۔

جب 1996 میں طالبان اقتدار میں آئے تو انہوں نے موسیقی پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی اور صرف مذہبی شاعری کے لیے صداکاری کی اجازت دی تھی۔ اس دور میں کیسٹس اور آڈیو ٹیپس کو توڑ پھوڑ کر درختوں سے ٹانگ دیا جاتا تھا۔

لیکن امریکہ کے حملے کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو احمد سرمست کی اپنے ملک میں موسیقی کی بحالی کا خواب ایک بار پھر تازہ ہوا۔

اس وقت تک احمد سرمست آسٹریلیا میں فنِ موسیقی میں پی ایچ ڈی مکمل کر چکے تھے۔ وہ 2010 میں افغانستان آئے اور 'افغاسنتان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک' کی بنیاد رکھی۔

سرمست کے قائم کیے گئے میوزک اسکول کے لیے بیرونی حکومتوں نے دل کھول کر امداد فراہم کی۔ عالمی بینک نے انسٹی ٹیوٹ کے لیے 20 لاکھ ڈالر کی نقد امداد فراہم کی تھی۔

میوزک اسکول میں طبلہ سیکھنے کے شائقین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔(فائل فوٹو)
میوزک اسکول میں طبلہ سیکھنے کے شائقین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔(فائل فوٹو)

جرمنی نے اس انسٹی ٹیوٹ کے لیے پانچ ٹن موسیقی کے آلات اور ساز فراہم کیے جن میں وائلن، پیانو، گٹار اور شہنائیاں وغیرہ شامل تھے۔ یہاں طلبا روایتی ساز ستار، رباب اور سرود بجانا بھی سیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ طبلہ سیکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔

افغانستان کا مختلف عکس

الہام فانوس 2014 میں اس ادارے سے تربیت مکمل کرنے والے پہلے طالب علم تھے۔ انہوں نے اس ادارے میں سات برس گزارے جنہیں یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کا اسکول اور وہاں کی ہر چیز کمال تھی۔

الہام فانوس نے کہا کہ کابل میں اس میوزک اسکول میں آںے والے ایک مہمان نے کہا تھا کہ یہاں آکر محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان ایک خوش باش جگہ ہے۔

فانوس نے حال ہی میں نیویارک کے مینہیٹن اسکول آف میوزک سے پیانو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ امریکہ کی یونی ورسٹی کے کسی میوزک پروگرام میں داخلہ لینے والے پہلے افغان تھے۔ وہ افغانستان میں بدلتے حالات کو ناقابلِ یقین قرار دیتے ہیں۔

افغانستان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک سے تربیت حاصل کرنے والے موسیقار نے دنیا کے کئی ممالک میں اپنے ملک کی نمائندگی کر کے اس کی مختلف تصویر پیش کی۔ وہ پولینڈ، اٹلی اور جرمنی میں فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔

موسیقی کی تربیت حاصل کرنےو الے افغان بچوں کی 2013 میں کابل میں پرفارمنس کی ایک تصویر۔
موسیقی کی تربیت حاصل کرنےو الے افغان بچوں کی 2013 میں کابل میں پرفارمنس کی ایک تصویر۔

اس انسٹی ٹیوٹ کا آکیسٹرا 2013 میں امریکہ کے پہلے دورے پر آیا تھا اور مختلف مقامات پر فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس آکیسٹرا میں وہ بچیاں بھی شامل تھیں جو موسیقی کی تربیت حاصل کرنے سے قبل کابل کی گلیوں میں چیونگم فروخت کیا کرتی تھیں۔

اس اسکول نے 2015 میں فارسی ادب میں موسیقی کی دیوی تصور ہونے والی 'زہرہ' کے نام پر خواتین کا آکیسٹرا بنایا تھا۔

طالبان کا حملہ

احمد سرمست 2014 میں کابل میں فرانس کے زیرِ اہتمام چلنے والے اسکول میں ایک کنسرٹ میں شریک تھے جہاں ایک ہولناک دھماکہ ہوا تھا۔

اس دھماکے میں احمد سرمست زخمی ہوئے تھے اور ان کے ایک کان کی سماعت چلی گئی تھی۔ طالبان نے اس خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی اور احمد سرمست پر افغانستان کی ثقافت آلودہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد احمد سرمست نے اپنا کام جاری رکھا اور وہ کابل میں میوزک اسکول اور آسٹریلیا میں اپنے خاندان کو برابر وقت دیتے رہے۔

وہ آج کابل میں اپنے قائم کیے گئے میوزک اسکول میں ترتیب دی گئی دھنیں یاد کرتے ہیں۔

اسکول سے تربیت حاصل کرنےو الی لڑکیوں نے 2013 میں امریکہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔(فائل فوٹو)
اسکول سے تربیت حاصل کرنےو الی لڑکیوں نے 2013 میں امریکہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔(فائل فوٹو)

ان کا کہنا ہے کہ "میرے بچوں کے خواب بکھر رہے ہیں۔ میرے شاگرد ایک پُرامن افغانستان کا خواب دیکھ رہے تھے اور اب یہ خواب دھندھلا رہا ہے۔"

اس کے باوجود احمد سرمست پر امید ہیں اور انہیں توقع ہے کہ افغان نوجوان مزاحمت کریں گے۔

اس کے علاوہ احمد سرمست افغانستان میں موسیقی کی حفاظت کے لیے عالمی سطح پر فن کاروں سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے رابطے بھی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میری امید برقرار ہے کہ میرے بچے اپنے اسکول جاتے رہیں گے، موسیقی سے محظوظ ہوں گے اور سُر چھیڑتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG