وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کو وعدہ کیا کہ افغانستان میں باقی رہ جانے والے امریکی شہریوں کو، اگر وہ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں تو امریکہ ان کے لیے راستے ڈھونڈے گا، لیکن خارجہ امور کمیٹی کے ایک اہم ری پبلیکن قانون ساز نے کہا ہے کہ طالبان باغی کابل ایئرپورٹ سے باآسانی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف ران کلین نے ٹی وی چینل سی این این کے 'سٹیٹ آف دی یونین' شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے نکل جانے کے ایک ہفتے کے بعد وہاں تقریباً ایک سو امریکی شہری باقی رہ گئے تھے۔
کلین نے کہا، "اگر وہ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں نکالنے کے راستے ڈھونڈیں گے اور امکانی طور پر ان کے لیے قطر کے راستے پروازیں بحال کی جا سکتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "اس کے علاوہ امریکہ ان افغان شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کی کوششیں جاری رکھے گا جنہوں نے کئی برسوں تک امریکی فوجیوں کی مدد کی تھی تاکہ وہ طالبان کی حکمرانی سے آزاد زندگی گزار سکیں۔
لیکن اپوزیشن کے ایک اہم قانون ساز، کانگریس کے رکن مائیکل میک کول نے، جو کہ ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے اہم ریپبلکن رکن ہیں، ٹیلی وژن شو 'فاکس نیوز سنڈے' میں بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس بریفنگ کی بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ گزشتہ پیر کو کابل سے امریکی فوجیوں کی آخری پروازوں کے بعد سینکڑوں امریکی شہری پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے اب تک کوئی امریکی شہری افغانستان سے نہیں نکل سکا۔
میک کول نے کہا، "طالبان مطالبات کر رہے ہیں، لیکن طیاروں کو روانہ ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔"
افغانستان میں حکام نے بتایا کہ مزار شریف کے ہوائی اڈے پر کم از کم چار ہوائی جہاز کھڑے ہیں، جنہیں کئی سو افراد کو نکالنے کے لیے چارٹرڈ کیا گیا تھا، لیکن انہیں پرواز کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ ان طیاروں کے ذریعے ایسے افغان شہری جانے والے تھے، جن میں سے کئی ایک کے پاس پاسپورٹ یا ویزا نہیں تھا۔ جب کہ میک کول نے کہا کہ ان لوگوں میں امریکی بھی شامل ہیں اور چھ طیاروں کو روکا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان "انہیں جانے کی اجازت دینے کے بدلے میں کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ،اور وہ ہے امریکی حکومت کی جانب سے افغان حکومت پر ان کے کنٹرول کو مکمل طور پر تسلیم کیا جانا۔
میک کول نے کہا کہ یہ کوئی نئے اور بہتر قسم کے طالبان نہیں ہیں۔ وہ ان کا موازنہ 2001 کے طالبان گروپ کے طرز عمل سے کر رہے تھے جب امریکہ نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملہ کر کے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا کیونکہ القاعدہ نے 11 ستمبر کو امریکہ پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی جن میں تقریباً 3،000 افرادمارے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ افغان مترجموں کو، جنہوں نے کئی برسوں تک امریکی فوجیوں کی مدد کی تھی، انہیں اس وقت ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا جب وہ اپنا ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں اپنے گھروں میں بھیج کر یہ مناظر دیکھنے پر مجبور کیا گیا کہ ان کے خاندان کے کچھ لوگوں کو ہلاک کیا گیا، کچھ کے سر قلم کیے گئے، کچھ مترجم خود بھی مارے گئے۔
تاہم میک کول نے ان معلومات کے لیے اپنا ذریعہ نہیں بتایا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ طالبان نے کتنے لوگوں کو ہلاک کیا۔
میک کول نے کہا کہ ان ہلاکتوں کی ذمہ داری بائیڈن پر عائد ہوتی ہے۔
امریکہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے افغانستان سے اپنے آخری فوجیوں کے انخلاء کے بعد، بائیڈن نے 98 فیصد امریکیوں کو ملک سے باہر نکالنے کو’’ غیر معمولی کامیابی" قرار دیتے ہوئے انخلا کے عمل کا بھرپور دفاع کیا تھا۔
بائیڈن متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کو ہمیشہ کے لیے جنگ کے طور پر جاری نہیں رکھیں گے۔
امریکہ میں رائے عامہ کے قومی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکی شہری صدر بائیڈن کے افغانستان چھوڑنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ اس افراتفری کے حق میں نہیں ہیں جو وہاں انخلا کی وجہ سے رونما ہوئی۔ امریکی موجودگی کے آخری دنوں میں، ائیر پورٹ کے قریب ایک خودکش بم حملے میں 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے، جس کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ ایک دہشت گرد گروہ افغان دولت اسلامیہ خراسان (داعش خراسان) نے کیا تھا۔