افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ پاکستان کے دورے کر رہے ہیں اور پاکستان دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور طالبان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کو بعض حلقے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں کیوں کہ اشرف غنی کی معزول افغان حکومت کو پاکستان میں 'بھارت نواز' سمجھا جاتا تھا۔
اب کئی تجزیہ کار اور کالم نگار افغانستان میں طالبان کی فتح کو پاکستان ہی کی فتح قرار دے رہے ہیں جب کہ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے، جس کی افغانستان کے تمام چھ پڑوسیوں کے مقابلے میں سب سے طویل سرحد لگتی ہے، دنیا پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کو اس کے حال پر نہ چھوڑے بلکہ یہاں کے مسائل حل کرنے میں دنیا مدد کرے اور طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کیے جائیں۔
پاکستان کی جانب سے دنیا پر طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے پر کیوں زور دیا جا رہا ہے اور آخر اس میں پاکستان کا کیا مفاد وابستہ ہے؟
اس سوال کا جواب پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف یوں دیتے آئے ہیں کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ اگر یہاں نوے کی دہائی کی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں تو نتیجے کے طور پر جو سیکیورٹی کا خلا پیدا ہو گا اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہو گا۔
اُن کے بقول اگر افغانستان میں امن و امان اور لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہ ہوئے تو پاکستان کو مزید مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
'پاکستان کے افغانستان میں اسٹرٹیجک مفادات ہیں'
مصنف اور یونی ورسٹی آف لندن میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ آف اسکول فار اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ عائشہ صدیقہ کے خیال میں اس سوال کا جواب انتہائی سادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد پاکستان افغانستان میں بڑا کھلاڑی رہا ہے۔ تاہم نائن الیون کے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں، کابل پر قبضے اور پھر بون کانفرنس کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی۔
اُن کے بقول، پاکستان کے افغانستان میں اسٹرٹیجک مفادات ہیں اور اس کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ طالبان کا واضح جھکاؤ پاکستان کی جانب رہا ہے اور پاکستان کا طالبان کے ساتھ قریبی تعلق اس کے اپنے اسٹرٹیجک مفادات کی نگرانی کے لیے اہم رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کی حال ہی میں سامنے آنے والی کتاب 'اقتدار کی مجبوریاں' پڑھنے سے یہ چیزیں اور بھی واضح ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد اور مقصد یہی ہے کہ پاکستان، افغانستان پر مشتمل ایک ایسی سیاسی کنفیڈریشن قائم کی جائے یا کم از کم ایک ایسا بلاک ہو جس میں آنے والے دنوں میں وسطی ایشیا کے مزید ممالک اور ایران بھی شامل ہو سکے۔ اور اس کی اپنی ایک طاقت اور اثر ہو۔
اُن کے بقول اس بلاک کی وجہ سے اس خطے کو دنیا آسانی سے نظر انداز نہیں کر پائی گی۔ اس لیے اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کی کوششیں گزشتہ 30 برس سے جاری ہیں اور یہ حکمتِ عملی پاکستان کو دنیا میں اہمیت کا حامل بنائے رکھی گی۔
'پاکستان کو طالبان اور دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ہو گا'
عائشہ صدیقہ کے مطابق اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی ریاست قومیت کے سیکولر نظریے سے کافی غیر مطمئن رہی ہے۔ لہٰذا کابل میں قائم حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ کر پاکستان ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب پختون قومیت کے تصور کو کنٹرول میں رکھ سکے گا۔
اُن کے بقول سرحد کے دونوں اطراف ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو ڈیورنڈ لائن کو بارڈر تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان ایسے لوگوں کو اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا آیا ہے۔ لیکن کابل میں 'پاکستان نواز' طالبان کی حکومت کے قیام سے یہ خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ دنیا کو راضی کر سکے کہ وہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کو قبول کریں۔ تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو نہ صرف قبول کرنے بلکہ ان کا دنیا بھر کے پلیٹ فارمز پر ساتھ دینے کے اثرات بھی سامنے آئیں گے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان کو بہت ہی محتاط رویے کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان طالبان اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھتا ہے۔
عائشہ صدیقہ اس خیال سے متفق نہیں کہ پاکستان افغانستان میں مستقبل میں چینی مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں فی الوقت اس میں چین کا اس قدر کردار نظر نہیں آتا لیکن آگے چل کر دیکھنا ہو گا کہ خطے کی صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرتی ہے اور ایسے میں چین کہاں کھڑا ہوتا ہے۔
اُن کے بقول مستقبل میں امریکی مفاد یہاں تک محدود ہو گا کہ دوبارہ افغان سر زمین سے نائن الیون طرز کے کسی حملے کی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔
'پاکستان میں امن کا قیام افغانستان میں امن سے براہ راست جُڑا ہے'
دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان کی فوج میں کئی دہائیوں تک فرائض سر انجام دینے والے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امن و استحکام کا براہِ راست تعلق افغانستان میں امن سے ہے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں اتفاقِ رائے سے ملک کے تمام دھڑے اور نسلی گروہ شامل ہوں۔
ان کے بقول طالبان کی جانب سے بھی ایسی ہی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام سیاسی اور نسلی گروہوں پر مشتمل حکومت قائم کی جائے۔
امجد شعیب کے مطابق اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران دنیا نے یہ دیکھ لیا ہے کہ طالبان کو حکومت سے باہر رکھ کر وہاں پر قائم کسی بھی حکومت کو پورے افغانستان کی حمایت نہیں مل سکی۔ نتیجتاً وہاں جنگ جاری رہی اور ظاہر ہے کہ اس جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی آئے۔
اُں کے بقول اشرف غنی کی معزول حکومت کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے علاقوں پر ان کا کنٹرول نہیں تھا اور یوں وہ علاقے پاکستان، چین اور روس سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی حکومت کا خواہاں ہے جس کی مرکزی حکومت تمام علاقوں پر کنٹرول رکھ سکے اور ظاہر ہے وہ تب ہی ممکن ہے جب ایسے علاقوں سے لوگوں کی حکومت کو حمایت حاصل ہو۔
'اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو یہاں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے'
جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان قطعی طور پر یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان پر صرف طالبان یا کسی ایک فریق کی حکومت ہو بلکہ وہ افغانستان کے تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت ہونی چاہیے۔ لیکن اگر اس میں وقت لگتا ہے تو اس اثنا میں اقوامِ عالم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے تو یہاں بڑا انسانی المیہ جنم لے گا۔
اُن کے بقول افغانستان میں لوگوں کو خوراک، صحت اور حکومتی نظم و نسق چلانے اور امن و امان کے قیام کے لیے مالی معاونت درکار ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا افغانستان میں قائم حکومت سے بات چیت کرے اور پہلے کی طرح سیاسی، مالی اور معاشی تعاون برقرار رکھے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے اثرات پاکستان پر مہاجرین کی مزید آمد اور حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کی صورت میں منفی طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔