پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کابل کے ایک روزہ دورے کے بعد اسلام آباد واپس آچکے ہیں۔ کابل میں انہوں نے طالبان قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں۔ افغانستان کی صورت حال خطے کے ملکوں، بلکہ دنیا بھر کے لئے اس قدر اہم کیوں ہے؟ اور کیا پاکستان نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے؟ اس بارے میں ماہرین کی آراء میں کم و بیش اتفاق نظر آتا ہے۔
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ، ڈاکٹر خرم اقبال کہتے ہیں کہ اگر گلوبل جیو پولیٹکل سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو اس وقت جو بحث سب سے زیادہ اہمیت کی حامل نظر آتی ہے وہ ہے امریکہ اور چین کے درمیان پاور پولیٹکس۔ اسے مشرق اور مغرب کے درمیان بھی پاور پولیٹکس سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ایشیا عروج کی جانب جا رہا ہے اور جب ایشیا کے عروج یا ترقی کے حوالے سے بات ہو تو افغانستان اس کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
بقول ان کے، ''اسے یہ اہمیت آج سے نہیں بلکہ عرصے سے حاصل ہے۔ یہاں تک کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں اسے ایشیا کا دل قرار دیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کو مستحکم کئے بغیر ایشیا مستحکم نہیں ہو سکتا''۔
ڈاکٹرخرم اقبال نے کہا کہ اگر افغانستان غیرمستحکم ہوگا، خواہ وہ دہشت گردوں کے اجتماع کے سبب ہو یا گورننس کے مسائل کے سبب، اس کے اثرات ایشیا میں محسوس کئے جائیں گے، خاص طور سے چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے کے لئے افغانستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ، ان حالات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ افغانستان اگر مستحکم نہ ہوا تو چین کا بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ بھی اس طرح نہیں چل پائے گا جیسے وہ چاہتا ہے۔
اس لئے، بقول ان کے، بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت عالمی سیاست کا دل افغانستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی قوتیں اور ذرائع ابلاغ ہوں یا مشرقی وہ اسوقت افغانستان کو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد کے دورہ کابل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کوششوں کا مقصد افغانستان کو دوطرفہ بنیادوں پر اور کثیر ملکی بنیادوں پر انگیج کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ، ماسکو کانفرنس اور دوسرے فورمز پر افغانستان کے مسئلے کے بارے میں غور و فکر اور تبادلہ خیال سے جلد ہی اس بارے میں کم از کم ایک علاقائی اتفاق رائے سامنے آجائے گا اور علاقائی ممالک کی کوشش ہو گی کہ افغانستان کے حوالے سے عالمی برادری کے جو تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کے لئے نئے افغان حکمرانوں کو آمادہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر ماسکو پروسیس میں ہونے والی گفتگو پر نظر ڈالیں تو طالبان سے انسانی حقوق، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور اجتماعی حکومت کے بارے میں وہی مطالبات کئے جا رہے ہیں جو امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خرم نے کہا کہ افغانستان کے سلسلے میں دنیا کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ اسے انگیج کیا جائے، کیونکہ نوے کی دہائی میں اسے نظر انداز کرنے کی دنیا بھاری قیمت ادا کر چکی ہے۔ اب اسے انگیج کس طرح کیا جائے، اس بارے میں واضح طور پر دو انداز فکر ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں تسلیم کرکے معاملات کو آگے بڑھایا جائے اور دوسرا یہ کہ طالبان کو تسلیم نہ کیا جائے بلکہ افغان عوام کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی جائے اور افغانستان کو مکمل تباہی سے بچایا جائے اور اگر طالبان اپنے وعدوں کو پورا کریں تو انہیں تسلیم کیا جائے۔
عالمی سیاست اور افغان امور ہر گہری نظر رکھتے والے تجزیہ کار اور نیویارک کی سٹی یونیورسٹی سے وابستہ، جہانگیر خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت افغانستان کو اتنی اہمیت دئے جانے کا سبب تاریخ کا وہ سبق ہے جو اس نے دنیا کو دیا ہے کہ جب بھی افغانستان میں بد نظمی اور بد امنی ہوتی ہے اور دہشت گرد اسے اپنا مسکن بناتے ہیں تو پوری دنیا کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بہتر طور ہر سمجھتی ہے کہ افغانستان کو نظر انداز کیا گیا تو ایک جانب تو داعش اور اس جیسے دوسرے دہشت گرد گروپوں کو مستقل پناہ گاہ مل جائے گی؛ دوسری جانب وہاں خشک سالی، خوراک کی کمی، معاشی بد حالی اور نقل وطن کے سبب ایک بڑا انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔
جہانگیر خٹک کا بھی یہی کہنا تھا کہ دنیا کے ذہن میں نوے کے عشرے کے طالبان ہیں اور وہ آج کے طالبان پر ماضی کے تجربے کی روشنی میں اس وقت تک اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں جب تک وہ اپنے عمل سے ثابت نہ کریں، جو وہ اب تک ثابت نہیں کر سکے ہیں۔
بقول ان کے، لیکن، ساتھ ہی دنیا افغانستان کو نظرانداز کرکے یہ خطرہ بھی مول نہیں لے سکتی کہ تاریخ خود کو دہرانے لگے۔ یہ دوہری مشکل ہے اور اسی لئے اس وقت یہ مسئلہ دنیا کے لئے اہم بنا ہوا ہے۔ اور دنیا کے ہاتھ میں اس وقت اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے دو ہی ہتھیار ہیں کہ طالبان کو تسلیم نہ کرکے ان پر دباؤ جاری رکھا جائے کہ وہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور حکومت میں تمام گروپوں کی شمولیت کے اپنے وعدے پورے کریں اور دوسری جانب معاشی مدد براراست عوام کو دے کر انہیں مکمل تباہی سے بچایا جائے۔