پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ افغانستان کے ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے ہیں۔ خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور وزیرِ اعظم کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق کابل کے ہوائی اڈے پر افغانستان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی، افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان اور افغان وزارتِ خارجہ کے سینئر حکام نے شاہ محمود قریشی کا استقبال کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کابل میں افغانستان کے عبوری وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند سے ملاقات کی۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند نے شاہ محمود قریشی اور پاکستانی وفد کو کابل آمد پر خوش آمدید کہا۔
طالبان کے عبوری وزیرِ اعظم نے انسانی امداد کی بر وقت فراہمی پر پاکستان کی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔
یاد رہے کہ پاکستانی وفد میں وزیرِ خارجہ کے ہمراہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، سیکرٹری کامرس صالح احمد فاروقی، چیئرمین پی آئی اے ایئر مارشل (ر) ارشد ملک، چیئرمین نادرا طارق ملک، کسٹمز، فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل کابل پہنچنے پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے قریبی برادر ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان علاقائی امن اور استحکام کے لیے اپنی بھرپور کاوشیں بروئے کار لا رہا ہے۔
ان کے بقول پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں سہولت کے لیے بارڈر کراسنگ پوائنٹس میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان نے کووڈ پروٹوکول کے تحت افغان شہریوں کی نقل و حرکت اور سفری سہولت کے لیے ویزہ کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ اور کارگو کی آمد و رفت میں سہولت کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق وزیرِ خارجہ کے اس دورے کا مقصد معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے افغان عوام کی حمایت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت، اقتصادی و عوامی سطح پر تعاون کو بڑھانا ہے۔
خیال رہے کہ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد امریکہ سمیت عالمی برادری نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ طالبان افغانستان کے دیگر نسلی گروہوں کو حکومت میں شامل کرنے کے علاوہ خواتین کے حقوق کی پاسداری کریں اور دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکیں۔
پاکستان بھی طالبان پر جامع حکومت کے قیام کے لیے زور دیتا رہا ہے، تاہم پاکستان کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ دنیا کو طالبان کو تنہا چھوڑنے کے بجائے اُن سے بات کرنی چاہیے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہٴ افغانستان کے بارے میں افغان تجزیہ کار نصراللہ حقپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں بہت سے اہم معاملات پر بات چیت ہو گی جن میں سرفہرست دونوں ممالک کے درمیان اس وقت موجود تلخی کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد چاہتا ہے کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ لہذا ان امور پر بھی بات چیت لازمی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان طالبان حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد معیشت کی حالت بہت بری ہے اور افغان حکومت بین الاقوامی سطح پر امداد چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارت کے لیے بھی ان کا انحصار پاکستان پر ہی ہے۔
نصراللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی امداد اس وقت بہت کم ہے اور ہر معاملے میں انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اسٹڈیز کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کہتے ہیں اس وقت اہم معاملہ طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے اور پاکستان اس بات پر زور دے گا کہ افغانستان خود دنیا کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرے تاکہ بین الاقوامی برادری سے ان کے تعلقات بہتر ہوسکیں۔
عبداللہ خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات سے الگ نہیں ہوسکتا لیکن افغانستان کو اپنے زیادہ تر معاملات کا بوجھ خود اٹھانا ہو گا۔ ان کے بقول پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور موجودہ حالات میں افغانستان سے متعلق امور اس کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔
عبداللہ خان نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 12 ہزار سے زائد غیر ملکی افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں شناختی دستاویزات کا نظام تباہ حال ہے، ان حالات میں خدشہ ہے کہ یہ افراد پاکستان میں افغان مہاجرین کے روپ میں کوئی دہشت گرد کارروائیاں کرسکتے ہیں۔
کابل کے دورے کے موقع پر چیئرمین نادرا طارق ملک بھی وزیرِ خارجہ کے ہمراہ ہیں اور عبداللہ خان کہتے ہیں شناختی دستاویزات کے حوالے سے پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بات ہو سکتی ہے۔