رسائی کے لنکس

محمد علی جناح بھارت میں کب کب سیاسی تنازع کا موضوع بنے؟


بانیٔ پاکستان محمد علی جناح۔
بانیٔ پاکستان محمد علی جناح۔

بھارت کی سیاست میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے متعلق بیانات گزشتہ برسوں میں تنازعات کا باعث بنتے رہے ہیں۔

رواں ہفتے بھارت کی ریاست اُتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے ایک بیان کے بعد محمد علی جناح کی شخصیت ایک بار پھر خبروں اور سیاسی بیانات کا موضوع بنی ہوئی ہے۔

اکھلیش یادو نے 31 اکتوبر کو کانگریس رہنما سردار پٹیل کے 146 ویں یومِ پیدائش پر اترپردیش کے علاقے ہردوئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "سردار پٹیل، مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور جناح نے ایک ہی ادارے میں تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بنے۔ انہوں نے ہمیں آزادی دلائی اور کسی بھی لڑائی میں وہ پیچھے نہیں ہٹے۔"

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں اگلے برس ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کے لیے انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اکھلیش یادو کے بیان کے بعد یوپی کی انتخابی مہم میں اب جناح موضوع بحث بن گئے ہیں۔

یوپی کی سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی کے ترجمان نے بیان دیا ہے کہ مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 'رام' کے نام پر اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی 'جناح' کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی قوم پرستی کے اپنے بیانیے کی وجہ سے محمد علی جناح سے متعلق بظاہر مثبت بیانات پر بھی شدید ردِ عمل ظاہر کرتی ہے اور ماضی میں اس کے دو بانی ارکان کو بھی اس ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لیکن ایسا کرنے والی بی جے پی واحد جماعت نہیں۔ ماضی اور حالیہ تنازع میں کانگریس سمیت بھارت کی دیگر بڑی جماعتیں بھی محمد علی جناح سے متعلق کسی بظاہر مثبت بیان سے فاصلہ اختیار کرتی آئی ہیں۔

ایڈوانی اور ’سیکولر‘ جناح

بھارت میں لال کرشن ایڈوانی وہ نمایاں ترین سیاسی رہنما ہیں جو محمد علی جناح سے متعلق بیان پر پیدا ہونے والے تنازع کا شکار ہوئے اور انہیں اس کی وجہ سے بی جے پی کی صدارت سے بھی مستعفی ہونا پڑا۔

ایل کے ایڈوانی 2004 میں تیسری مرتبہ بی جے پی کے صدر بنے تھے۔ انہوں نے 2005 میں پاکستان کا چھ روزہ دورہ بھی کیا تھا۔

بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق ایڈوانی کے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

ایڈوانی نے پاکستان میں اپنے ایک بیان میں محمد علی جناح کو ایک ایسا رہنما قرار دیا تھا جو تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی دینے والی سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔

بی جے پی کے صدر نے بانیٔ پاکستان کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ تاریخ بنانے والی گنی چنی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔

ایل کے ایڈوانی کے اس بیان پر راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد سمیت دائیں بازو کی دیگر تنظیموں اور حکمران جماعت کانگریس نے بھی انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایل کے ایڈوانی نے اس تنقید کے بعد پارٹی کی صدارت سے استعفی دے دیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے پارٹی کے مطالبے پر اپنا فیصلہ تبدیل تو کیا لیکن زیادہ عرصے وہ منصب پر برقرار نہ رہ سکے۔

جون 2005 میں بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس کے مطابق محمد علی جناح کو ہندوستان کی تقسیم اور اس کے بعد ہونے والے پُرتشدد واقعات کا ذمے دار قرار دیا گیا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس کے بعد بظاہر یہ معاملہ حل ہو گیا لیکن ایڈوانی اور بی جے پی کی فکری سرپرست تصور ہونے والی آر ایس ایس کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔

بالآخر ایل کے ایڈوانی نے سات ماہ بعد 31 دسمبر 2005 کو اسی تنازع کی وجہ سے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیا اور راج ناتھ سنگھ بی جے پی کے صدر بنے۔

بعدازاں ’انڈیا ٹوڈے‘ کو ایک انٹرویو میں ایل کے ایڈوانی نے کہا کہ ان کے بیان کو غلط تناظر میں پیش کیا گیا ​اور انہیں پاکستان میں محمد علی جناح سے متعلق اپنے بیان پر کوئی پچھتاوا نہیں۔

بھارت کے سیاسی مبصرین کے مطابق اس تنازع سے بھارت کی سیاست میں ایل کے ایڈوانی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی اور رفتہ رفتہ پارٹی پر ان کا اثر و رسوخ بھی کم ہوتا گیا۔

بی جے پی رہنما کی کتاب پر تنازع

سن 2009 میں بی جے پی کے ایک اور بانی رکن اور سینئر رہنما جسونت سنگھ کو محمد علی جناح کے بارے میں اپنی مثبت رائے کی وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا۔

جسونت سنگھ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیرِ خزانہ اور خارجہ رہ چکے تھے۔ وہ 1980 سے 2014 تک لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے تھے۔

پاکستان کے بانی سے متعلق 2009 میں جسونت سنگھ کی کتاب ’جناح: انڈیا- پارٹیشن- انڈیپینڈنس‘ شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مصنف نے محمد علی جناح کی تعریف کی اور یہ رائے دی کہ جواہر لال نہرو کی پالیسیوں نے ہندوستان کی تقسیم میں مرکزی کردار ادا کیا اور اس حوالے سے جناح کے کردار کو 'منفی' بنا کر پیش کیا گیا۔

اس کتاب میں بانیٔ پاکستان کے بارے میں دی گئی رائے کی وجہ سے بی جے پی نے جسونت سنگھ کی پارٹی رکنیت ختم کر دی تھی اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم میں جناح کا کردار اہم تھا۔

جسونت سنگھ
جسونت سنگھ

بی جے پی کا کہنا تھا "سب جانتے ہیں کہ جناح کی وجہ سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی اور غیر یقینی کا سامنا کرنا پڑا اور تاریخ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔"

پارٹی رکنیت ختم کرنے کے فیصلے پر جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ 30 برس تک جاری رہنے والا ان کا سیاسی سفر ختم ہونے پر انہیں افسوس ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ انہیں پارٹی سے ایک کتاب لکھنے پر نکالا گیا۔

بعد ازاں ایل کے ایڈوانی کی مداخلت پر جسونت سنگھ کی رکنیت بحال کر دی گئی تھی۔ گزشتہ برس 28 ستمبر کو ان کا انتقال ہوا۔

جسونت سنگھ کے انتقال پر بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر ان کی سیاسی خدمات کو سراہا تھا۔

جناح کی تصویر پر تنازع

یکم مئی 2018 کو بھارتی ریاست اتر پردیش میں علی گڑھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی ستیش گوتم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے نام خط میں یہ سوال اٹھایا کہ یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کیوں لگی ہوئی ہے؟

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے تقسیم ہند سے قبل محمد علی جناح کو تاحیات رکنیت دی تھی اور ان کے دفتر میں 1938 سے جناح کی تصویر آویزاں تھی۔

ستیش گوتم کے چانسلر کے نام خط لکھنے کے اگلے ہی روز دائیں بازو کی تنظیم ہندو یوا واہنی نے جناح کی تصویر ہٹانے کے لیے دو مئی 2018 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں احتجاج کیا۔ ہندو یوا واہنی نامی اس تنظیم کی بنیاد یوگی ادتیہ ناتھ نے رکھی تھی جو بعد میں یو پی کے وزیرِ اعلی بنے۔

کیا جناح ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:03 0:00

احتجاج کے دوران ہندو یوا واہنی اور یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 41 افراد زخمی ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں شروع ہونے والے اس احتجاج اور تصادم نے بھارت میں ایک بڑے سیاسی تنازع کی شکل اختیار کر لی تھی۔

طلبہ یونین کا مؤقف تھا کہ محمد علی جناح کی تصویر یونیورسٹی کی تاریخ کا حصہ ہے جسے تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے محمد علی جناح کی تصویر اپنے دفتر میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جب کہ انتظامیہ نے صدر رام ناتھ کووند سے اس معاملے میں عدالتی کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

بھارتی اخبار ’اسٹیٹس مین‘ کے مطابق رواں برس ستمبر میں علی گڑھ میں بی جے پی کے عہدے داروں نے اپنے خون سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں ایک بار پھر یونیورسٹی سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ تاہم یونیورسٹی میں یہ تصویر تاحال موجود ہے۔

’قائد اعظم‘ کہنے پر تنقید

علی گڑھ یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کا تنازع جب خبروں میں تھا انہی دنوں بھارت کے سابق سول سرونٹ اور کانگریس کے سینئر سیاست دان منی شنکر ایر پاکستان میں موجود تھے۔

انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح کو 'قائدِ اعظم' کہا اور ہندو قوم پرست مصنف اور رہنما ساورکر کو 'دو قومی' نظریے کا بانی قرار دیا۔

منی شنکر کے اس بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے اُس وقت کے صدر امیت شاہ نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کانگریس اور پاکستان میں ٹیلی پیتھی کا تعلق ہے۔ ایک جانب پاکستان ٹیپو سلطان کی یاد مناتا ہے اور کانگریس بھی ان کی سالگرہ مناتی ہے اور منی شنکر ایر جناح کی تعریف کرتے ہیں۔

وزیرِ اعظم مودی سے متعلق اپنے ایک بیان کی وجہ سے منی شنکر ایر کی پارٹی رکنیت پہلے ہی معطل تھی۔ محمد علی جناح سے متعلق اس بیان پر کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے بھی تنقید کی۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ منی شنکر ایر کی رکنیت پہلے ہی سے معطل ہے۔ وہ اپنی ہی زبان بولتے ہیں۔ حیرت ہے کہ وہ بار بار کیوں پاکستان جاتے ہیں۔ انہیں اب سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG