پاکستان میں کرونا وائرس پر نظر رکھنے والے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا کی نئی قسم 'اومکرون' پاکستان بھی آئے گی جس سے نمٹنے کا واحد طریقہ ویکسی نیشن ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں این سی او سی کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کے پھیلنے کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد یہ قسم دنیا کے مختلف ممالک میں بھی پائی گئی تھی۔
عالمی ادارۂ صحت نے وائرس کی اس نئی قسم کو 'تشویش ناک' قرار دیا ہے اور اس کا نام 'اومکرون' رکھا ہے۔
ان کے بقول اومکرون سے براہ راست متاثرہ چند ممالک سے پاکستان آنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہم مزید اقدامات لے رہے ہیں تاکہ بیرونِ ملک سے آنے والے لوگوں کے ذریعے اس قسم کا پھیلاؤ کنٹرول کیا جا سکے۔
اسد عمر نے کہا کہ ہم ان اقدامات سے اس نئی قسم کی پاکستان آمد میں تاخیر یا اس کے پھیلاؤ کو کم کر سکتے ہیں لیکن یہ ساری دنیا میں پھیلنا ہے کیوں کہ دنیا اتنی جڑی ہوئی ہے کہ اس کو روکنا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک قسم ہے لیکن ویکسی نیشن پھر بھی اس کے خلاف مؤثر ہو گی۔ انہوں نے ان تین کروڑ پاکستانیوں سے مکمل ویکسی نیشن کی بھی اپیل کی جو ویکسین کی ایک ڈوز لگوا چکے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم تمام صوبائی حکومتوں سے رابطے میں ہیں۔ آئندہ دو سے تین روز میں ویکسی نیشن کی ایک بڑی مہم شروع کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول کرونا سے زیادہ خطرے کے حامل افراد کے لیے بوسٹر ویکسین کا پروگرام شروع کرنے پر غور کیا گیا ہے۔ جس پر مشاورت ہو رہی ہے جو منگل تک مکمل ہو جائے گی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ ویکسی نیشن ضرور کروائیں۔
کرونا کی نئی قسم سے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ ویریئنٹ پاکستان بھی آئے گا لیکن ہمارے پاس دو سے تین ہفتے ہیں جس میں ہم زیادہ سے زیادہ ویکسی نیشن سے اس کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے نئی قسم سے متعلق بتایا کہ اس کا پھیلاؤ پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے۔ اس سے خطرہ یہ ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے سے نظامِ صحت پر دباؤ تیزی سے بڑھتا ہے۔
ان کے بقول اس وائرس میں کچھ ایسے تغیرات ہیں جو اسے زیادہ خطرناک بناتے ہیں اور اسے زیادہ تیزی سے پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے اب تک کی معلومات کے مطابق یہ وائرس زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور ممکن ہے یہ زیادہ خطرناک بھی ثابت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا ساری ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لہٰذا اس کے داخلے کو ناممکن بنانا اتنا آسان نہیں بلکہ یہ ناممکن ہے۔
ڈاکٹر فیصل کے مطابق نئے ویریئنٹ کا وقت کے ساتھ ملک میں داخل ہونا ناگزیر ہے۔ البتہ ہم اس عرصے میں مزید ویکسی نیشن بڑھا کر اپنے اقدامات کو مزید مؤثر کر سکتے ہیں۔