ارباز ملا اور شویتا کمبھر کی کہانی بالکل ویسے ہی شروع ہوئی جیسے دوسری محبت کی کہانیاں۔ کسی بھی دوسرے عام جوڑے کی طرح تین سال تک یہ دونوں بھی ایک ساتھ گھومتے پھرتے رہے، ساتھ کھانے کھائے، فلمیں دیکھیں، سیلفیاں کھینچیں اور ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہونے کے وعدے کئے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق،شویتا کے خاندان کو اس رشتے پر اس قدر غصہ تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پرچوبیس سالہ ارباز کو جان سے مارنے کے لئے ایک انتہا پسند ہندو گروہ کو اسے قتل کرنے کےلئے رقم ادا کی۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اٹھائیس ستمبر کو ریاست کرناٹکا کے شہر بیلاگوی کی پولیس کو ارباز ملا کا ٹکڑوں میں کٹا ہوا خون آلود جسم کہیں ریل کی پٹڑیوں پر ملا۔
گو کہ بھارت میں بین المذاہب شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہے مگر ایسی شادیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے سخت گیر ہندو خیالات والے افراد اسے خودساختہ الفاظ میں 'love jihad' یا 'محبت کا جہاد' قرار دیتے ہیں جس کے پس پردہ یہ خیال موجود ہے کہ مسلمانوں میں ہندو لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں مسلمان کرنا جہاد تصور کیا جاتا ہے، تاکہ، الزام کے مطابق، مسلم آبادی بڑھائی جا سکے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنان بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اس الزام کو ملکی قانون میں دی گئی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، اس طرح مسلمانوں کو انتہا پسند خیالات رکھنے والے ہندؤوں کے ہاتھوں نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔
دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سماجیات کے ریٹائرڈ پروفیسر موہن راؤ اسے سازشی نظریہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے ظاہر سی بات ہے، عام افراد میں خوف پیدا ہوتا ہے۔
دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان گوپال کرشنا اگروال کے مطابق ان کی پارٹی کو بین المذاہب شادیوں پر کوئی اعتراض نہیں مگر یہ کہ "لوو جہاد" پر خدشات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، کسی مقصد کے تحت، پیسوں کے ذریعے یا زور زبردستی ورغلانہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے اور بعض عدالتوں کے فیصلے 'لوو جہاد' کے نظریہ کو مفروضہ قرار دے چکے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بھی ملک کی مخلوط مذہبی ساخت میں 1951 سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق، ماضی کی طرح اب بھی ملک میں ہندو اکثریت میں ہیں اور ملک کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد %14 ہے۔
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے مطابق گزشتہ کئی سالوں میں سخت گیر موقف رکھنے والے انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ہندو مسلم رشتے روکنے کے لئے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سینکڑوں مسلمان لڑکوں پر حملے ہوئے ہیں، کئی کو قتل کر دیا گیا جبکہ جان بچانے کے لئے بعض روپوشی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
اس خوف کی فضا کے باوجود ریاست کرناٹکا کے شہر بیلاگوی میں ارباز ملا اور شویتا کمبھر کا عشق پروان چڑھا۔ دونوں ملے اور ایک دوسرے کو اپنا دل دے بیٹھے مگر ان کے روایتی خیالات والے محلے میں اس ہندو مسلم معاشقے کے بارے میں جلد ہی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔
یاد رہے کہ ریاست کرناٹکا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ ارباز ملا کی والدہ اس صورتحال میں فطری طور پر فکر مند تھیں، کیونکہ وہ پہلے ہی کئی ہندو مسلم جوڑوں پر حملوں کے واقعات کے بارے میں سن چکی تھیں۔
ماں نے ارباز کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رشتہ ختم کرنے کے لئے کسی صورت تیار نہ ہوا۔ بیٹے کو منانے میں ناکامی پر انہوں نے شویتا کے خاندان سے بارہا گزارش کی کہ وہ ہی اس رشتے کو قبول کرلیں مگر ان کا کہنا تھا کہ ماریں گے یا مرجائیں گے مگر رشتہ قبول نہیں کر سکتے۔
جلد ہی ارباز کو فون پر دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں۔ پہلے کمبھر خاندان کی جانب سے اور پھر انتہا پسند تنظیم شری رام سینا کی طرف سے دھمکیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جنہوں نے تعلق ختم کرنے کے ساتھ معاوضے کا بھی مطالبہ کیا۔
دھمکیوں سے پریشان ہو کر ارباز نے تعلق ختم کرنے کی بھی حامی بھری مگر محبت سے مجبور دونوں نے چھپ کر خط و کتابت جاری رکھی۔ شویتا کے خاندان کو جب اس کا پتہ چلا تو شری رام سینا ہندوستان کی جانب سے ارباز کو پھر بلوایا گیا۔
ارباز پھر کبھی گھر نہ لوٹا
پولیس نے بتایا کہ مبینہ طور پر ارباز کو لاٹھیاں مار مار کر پہلے لہولہان کیا گیا، پھر چھریوں کے وار سے اس کے اعضاء تن سے جدا کئے گئے تاکہ یہ ٹرین حادثہ نظر آئے اور اسی لئے ارباز کے جسم کے ٹکڑوں کو ٹرین کی پٹڑی پر ڈال دیا گیا۔
اس قتل پر دس لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک کسی پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ شری رام سینا ہندوستان کے مطابق، ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں محض ہندو بہبود کےلئے کام کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی سال 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق، بھارت میں مسلمان ہوں یا ہندو دونوں کی ہی اکثریت غیر مذاہب میں شادی کے مخالف ہے۔
[خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]