بھارت کے ضلع گڑگاؤں میں پارکوں اور کھلی جگہوں پر اس جمعے کو بھی نماز ادا نہیں ہو سکی۔
مقامی افراد نے سیکٹر 37 میں پولیس اسٹیشن کے قریب نماز کی جگہ پر قبضہ کر لیا۔
رپورٹس کے مطابق محمد پور، جھارسا، کھانڈسا اور کھٹولہ کے مقامی افراد نے پولیس اسٹیشن کے نزدیک نماز کے لیے مقررہ جگہ پر قبضہ کر لیا اور وہاں انھوں نے ہندو مذہب کے مطابق پوجا کی۔ قبل ازیں اس جگہ مقامی مسلمان ہر جمعے کو نماز ادا کیا کرتے تھے۔
پوجا کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ ممبئی پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی 13 ویں برسی پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
ان لوگوں نے پوجا سے قبل پولیس کو اس کی اطلاع دی اور دوپہر میں ایک بجے تقریباً 100 افراد نے وہاں پہنچ کر پوجا شروع کر دی۔
پوجا کے منتظمین میں سے ایک کھانڈسا گاؤں کے تاجر اونیش راگھو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں کی پنچایت کے کچھ لوگوں نے پولیس کو اس کی اطلاع دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے یہاں ممبئی حملوں کے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر سال یہ پروگرام کرتے ہیں۔ پہلے وہ محمد پور اور نرسنگھ پور میں پوجا کرتے تھے۔ اس بار انہوں نے اس میدان میں پوجا کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے بقول اس جگہ کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ گاؤں میں کہیں اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کا نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں سڑکوں پر نماز نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں کئی مجرمانہ واقعات ہو چکے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ یہاں آنے والے سبھی غیر سماجی عناصر ہیں لیکن ان لوگوں کی جانچ ہونی چاہیے۔
رپورٹس کے مطابق پوجا کرنے والے گروہوں میں نماز کی مخالفت کی مہم چلانے والی تنظیم ‘بھارت ماتا واہنی’ کے صدر دنیش بھارتی بھی شامل تھے۔
رپورٹس کے مطابق اس جمعے کو دوپہر سے کچھ پہلے کچھ مسلمان نماز کے لیے وہاں پہنچے تھے لیکن جب انھوں نے وہاں مقامی رہائشیوں کو دیکھا تو وہ نماز ادا کیے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے۔
تاہم اس سلسلے میں نو تشکیل شدہ تنظیم ’مسلم ایکتا منچ‘ کے صدر شہزاد خان کی قیادت میں تقریباً 25 مسلمانوں کے ایک گروپ نے پوجا کی جگہ سے ذرا فاصلے پر نماز جمعہ ادا کی۔
انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ شہر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں جس جگہ پر پوجا کی گئی وہ انتظامیہ کی جانب سے نماز کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
بعض رپورٹس کے مطابق پوجا کرنے کی جگہ پر پولیس اہلکار موجود تھے لیکن انھوں نے پوجا کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
رپورٹس کے مطابق جن پانچ گردواروں میں نماز کی اجازت دی گئی تھی وہاں بھی مخالفت کی وجہ سے نماز نہیں ہو سکی۔ وہاں مخالفت کرنے والے جا کر بیٹھ گئے تھے اور نعرہ بازی کر رہے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے وہاں نماز ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم ایک تاجر اکشے یادو کی دکان میں نماز جمعہ ادا کی گئی۔ اس سے قبل بھی وہاں نماز ادا کی گئی تھی۔
شہزاد خان نے میڈیا سے گفتگو میں یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ہفتے بھی سیکٹر 37 میں نماز کی مخالفت کی گئی تھی اور مقررہ جگہ پر لوگوں نے کرکٹ کھیلنی شروع کر دی تھی۔
ان کے بقول اس جمعے کو بھی یہی ہوا۔ انہوں نے لوگوں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے شکایت کی لیکن وہ خاموش رہے۔
ان کے مطابق سیکٹر 37 کی شیتلا کالونی میں واقع ایک خالی پلاٹ میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں بھی ہندوؤں نے کیرتن کرنا شروع کر دیا۔ جب کہ پلاٹ کے مالک نے گزشتہ ہفتے ہی وہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔
شہزاد کے مطابق چونکہ پلاٹ کا مالک وہاں سے کافی دور رہتا ہے۔ اس لیے اس کو اس بات کا علم نہیں ہو سکا۔ جب اسے بتایا گیا تو اس نے کہا کہ اس کی اجازت کے بغیر وہاں کیرتن کیسے شروع کر دیا گیا۔ وہ اپنی زمین پر کسی کو بھی نماز کی اجازت دے سکتا ہوں، کسی کو اس پر کیوں اعتراض ہو۔
گڑگاؤں کے ایک سماجی کارکن مفتی سلیم قاسمی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گردواروں میں بھی نماز ادا نہیں ہو سکی۔ سکھ برادری کے کچھ لوگ گردواروں کے میدان میں جا کر بیٹھ گئے۔
ان کے مطابق سکھ برادری کے بھی کچھ لوگ ہندوتووا تنظیموں بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے متعلق ہیں۔ انھوں نے وہاں نماز نہیں ہونے دی۔
انھوں نے مزید کہا کہ گردواروں میں نماز کی اجازت دینے والے شیر دل سنگھ نے کہا کہ گردواروں میں نماز کی اجازت دینے کی حمایت گولڈن ٹیمپل سے بھی کی گئی تھی لیکن کچھ لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے دیر تک ہنگامہ رہا۔ جس کے بعد مسلمانوں نے ہی وہاں نماز نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
اس سے قبل سکھوں کی تنظیم ’گورمت پرچار جتھا پنچ خالصہ‘ کے نائب صدر سردار روی رنجن سنگھ نے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنگت کے ارکان صدر میں واقع گردوارے جا کر وہاں نماز کی ادائیگی کو روکیں گے۔
ان کے مطابق تمام مذاہب کے لوگوں کے وہاں پہنچنے اور لنگر سے پرساد لینے کا خیرمقدم ہے لیکن ہم وہاں نماز یا کسی اور دیگر مذہب کی عبادت کی اجازت نہیں دیں گے۔
ادھر رپورٹس کے مطابق مقامی مسلمان اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں مذہبی آزادی اور عبادت کے آئینی حق سے محروم اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ایم ایل کھٹر اور وزیر داخلہ انل وِج کا کہنا ہے کہ سب کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق ہے لیکن عوامی مقامات پر نہیں۔
وزیر اعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی کو عبادت کے نام پر ٹریفک کو متاثر کرنے کا حق نہیں۔
رپورٹس کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ گروگرام میں صورت حال پرامن اور قابو میں ہے۔