بھارتی ریاست ہریانہ کے گڑگاؤں میں جہاں ایک طرف بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے کھلے مقامات پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے, وہیں پانچ گردواروں نے نماز کی ادائیگی کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
گردوارہ گورو سنگھ سبھا گڑگاؤں کے صدر شیر دل سنگھ سدھو نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے دشواری ہے تو وہ اپنی تنظیم کے زیرِ انتظام پانچ گردواروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ان پانچوں گردواوں میں بیک وقت مجموعی طور پر دو سے ڈھائی ہزار افراد کی گنجائش ہے۔
اطلاعات کے مطابق گڑگاؤں میں، جس کا نام تبدیل کرکے اب گرو گرام کردیا گیا ہے، گزشتہ دو ماہ سے دائیں بازو کی ہندوتوا نواز تنظیموں کا ایک گروپ پارکوں اور بالخصوص سیکٹر 12 کے پارک میں نماز کی ادائیگی کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ گروپ ہر جمعے کو وہاں پہنچ کر مبینہ طور پر نعرے بازی کرتا ہے اور نماز میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
پولیس نے 29 اکتوبر کو پارک میں مبینہ طور پر ہنگامہ کرنے کی وجہ سے 35 افراد کو گرفتار کر لیا تھا جنہیں 24 گھنٹے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
’خاموش تماشائی نہیں بن سکتے‘
گردوارہ گرو سنگھ سبھا گرو گرام کے صدر شیر دل سنگھ سدھو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔
ان کے بقول، "جب ہم نے دیکھا کہ یہاں کے مسلمانوں کو جمعے کی نماز ادا کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے اور کچھ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں اپنے گردواروں کو نماز کے لیے کھول دینا چاہیے۔ کیوں کہ کوئی بھی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا، ہر مذہب انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں مذہب کی بنیاد پر جو لوگ معاشرے میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں اور انہیں ایسا کرنے سے روکنا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان کے اس اقدام کا خیرمقدم کر رہا ہے البتہ کچھ لوگ گردواروں میں نماز کی اجازت دینے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہم فیصلے پر قائم ہیں۔
’مسئلے کو سمجھنا چاہیے‘
گردوارہ کمیٹی کے صدر شیر دل نے یہ بھی کہا کہ انتظامیہ نے کئی پارکوں میں مسلمانوں کو نمازِ جمعہ کی اجازت دی تھی لیکن اب ان کو روکا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے، ہمیں ان کے اس مسئلے کو سمجھنا چاہیے۔
جمعیت علما کے سیکرٹری اور اس معاملے میں سرگرم نو تشکیل شدہ ’گڑگاؤں مسلم کونسل‘ کے رکن مولانا صابر قاسمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گڑگاؤں اور پورے ملک کے مسلمان شیر دل سدھو کے اس اقدام کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح مذہب کی بنیاد پر ہندو مسلم منافرت پیدا کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے گا۔
صابر قاسمی کے بقول گر دواروں کے اس قدم سے بھارت میں یہ پیغام بھی جائے گا کہ اگر ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والے لوگ ہیں تو مذہب کی بنیاد پر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے والے بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی سکھوں نے ایسی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے جس کا مسلمانوں کی جانب سے خیرمقدم کیا جاتا رہا ہے۔
’یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا‘
صابر قاسمی کا کہنا ہے کہ اگرچہ گردواروں میں نماز کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے جمعے کو ماحول ٹھیک رہے گا اور شرپسند کوئی ہنگامہ نہیں کریں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ہنگامہ نہ ہونے دے اور اگر کچھ لوگ شرپسندی کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرے۔
انہوں نے کہا کہ شیر دل کے کہنے پر ہم لوگوں نے گردوارے کا جائزہ لیا ہے۔ مقامی مسلمان جمعہ کے روز ان گردواروں میں نماز ادا کریں گے۔
صابر قاسمی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پارکوں میں نماز کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن ریاستی اور مرکزی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے مخالفت کرنے والوں کا حوصلہ بڑھا۔
ان کے مطابق اگر حکومت نے نماز کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی ہوتی تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
اس سے قبل گڑگاؤں کے ایک غیر مسلم اکشے یادو نے گزشتہ جمعے کو اپنے مکان اور دکان کو نماز کے لیے کھول دیا تھا اور مسلمانوں نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔
اکشے یادو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت یہ پیشکش کی۔
احتجاج کون کررہا ہے؟
مولانا قاسمی نے بتایا کہ جو لوگ پارکوں میں نماز جمعہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے نکالے ہوئے لوگ ہیں اور ان کا مقصد ایک طرف ماحول خراب کرنا اور دوسری طرف ریاستی حکومت کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
گڑگاؤں مسلم کونسل کے شریک بانی اور شہریوں کی تنظیم ’گڑگاوں ناگرک ایکتا منچ‘ کے رکن الطاف احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے کہ اکشے یادو اور شیر دل سنگھ کے اقدامات کے بعد لوگوں کو ترغیب ہو گی۔ لوگ سامنے آ کر مسلمانوں کی حمایت کریں گے اور نماز کے لیے جگہ فراہم کریں گے۔
تنازع کب شروع ہوا؟
اطلاعات کے مطابق جمعے کی نماز سے متعلق تنازع اس وقت پیدا ہوا جب 17 ستمبر کو متعدد ہندو تنظیموں کے ایک گروپ ’بھارت ماتا واہنی‘ کے بانی دنیش بھارتی نے کچھ لوگوں کے ساتھ سیکٹر 47 کے پارک میں نماز کے مقام پر پہنچ کر نعرہ بازی کی اور نماز کی ادائیگی کی مخالفت کی۔ اس کے اگلے ہفتے سیکٹر 12 اور دیگر سیکٹرز میں بھی احتجاج ہوا۔
گزشتہ جمعے کو مذکورہ تنظیم کے کارکنوں نے سیکٹر 12 میں نماز کے مقام پر گوبر کی مورتی بنا کر ’گووردھن پوجا‘ کی اور اس میں دہلی سے بی جے پی کے ایک رہنما کپل مشرا نے شرکت کی۔ مبینہ طور پر اس موقع پر’گولی مارو‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
خیال رہے کہ بی جے پی رہنما کپل مشرا پر الزام ہے کہ انھوں نے رواں سال فروری میں ہونے والے دہلی کے فسادات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کپل مشرا اور بی جے پی کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی ہے۔
اگلے ہفتے اعلان کیا گیا کہ ہندو تنظیم کے افراد اس مقام پر والی بال میدان بنا رہے ہیں۔ اس طرح اس پارک میں نماز کی ادائیگی بند ہو گئی ہے۔
’عبادت صرف مقررہ مذہبی مقامات پر ہونی چاہیے‘
بھارت ماتا واہنی کے صدر دنیش بھارتی کا کہنا ہے کہ پارک عوامی مقامات ہیں لہٰذا وہاں نماز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جنہیں نماز ادا کرنی ہے وہ مسجدوں میں یا گھروں میں ادا کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پارکوں کی بجائے دوسری جگہوں پر نماز کا انتظام کریں یا پھر وقف بورڈ سے کہیں کہ وہ نماز کے لیے جگہ مختص کرے۔
پارکوں میں نماز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا الزام ہے کہ مسلمان کھلی جگہوں پر نماز ادا کرتے ہیں اور پھر وہاں ناجائز قبضہ کر لیتے ہیں۔
سیکٹر 12 کے ہندو رہائشیوں کا الزام ہے کہ پارکوں میں باہر کے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں جن میں متعدد روہنگیا بھی شا مل ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو پارکوں میں نماز کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ریاست کے وزیر داخلہ انل وج بھی پارکوں میں نماز کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو عبادت کی اجازت ہے لیکن عبادت صرف مقررہ مذہبی مقامات پر ہونی چاہیے نہ کہ عوامی مقامات پر۔
خیال رہے کہ گڑگاؤں میں مساجد کی تعداد بہت کم ہے اور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ 19 مساجد پر غیر مسلموں اور انتظامیہ کا قبضہ ہے۔ اگر انتظامیہ ان مسجدوں کو واگزار کرا دے تو انھیں باہر نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ جگہیں واگزار نہیں کرا سکتی تو کم از کم مسجدوں کی تعمیر کے لیے جگہ فراہم کر دے۔
رپورٹس کے مطابق گڑ گاؤں میں انتظامیہ نے 37 کھلے مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت دی تھی لیکن اب مبینہ طور پر ہندو تنظیموں کے دباؤ میں 16 مقامات پر نماز کی اجازت واپس لے لی گئی ہے۔