انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد ایک سو سے زائد سابق پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ہلاک یا جبری طور پر"لاپتہ" کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان کرنے کے باوجود سابق فوجیوں اور دفاعی اہلکاروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ واقعات درج کئے گئے ہیں، لیکن خیال ہے کہ اس سے دیگر صوبوں میں ہونے والے واقعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی مصنفہ پیٹریشیا گوزمین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان عسکریت پسند ان لوگوں کو ہدف بنا رہے ہیں، جن کے خلاف وہ لڑتے رہے ہیں۔ ہم نے جو تحقیقات کی ہیں، ان کے مطابق ایسے لوگ ہدف بن رہے ہیں جو اگلے محاذوں پر تھے اور طالبان مخصوص علاقوں میں ان لوگوں سے واقف تھے۔
کیا یہ انتقامی کارروائیاں ہیں؟
پیٹریشیا گوزمین نےمزید کہا کہ طالبان کی جانب سے اس وعدے کے باوجود کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، یہ حملے کیے گئے ہیں۔
ان کے بقول ’’انہوں (طالبان) نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان کابل میں ان کے سینئر عہدیداروں نے کیا تھا۔ مگر ہم نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے مطابق حقیقت میں اس کا اطلاق نہیں ہو رہا ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھلے ذاتی دشمنی کی وجہ سے یا پھر ان کے ماضی میں کردار کی وجہ سے۔‘‘
محققین نے 67 ایسے افراد کے ساتھ بالمشافہ ملاقات، عینی شاہدین یا متاثرہ افراد کے رشتہ داروں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت یا سابق حکومتی اور موجودہ طالبان عہدیداروں کے ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر شواہد اکٹھے کیے ہیں۔
ملازمتوں کا ریکارڈ:
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے سابق حکومت کا جو ریکارڈ ان کے ہاتھ لگا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کو گرفتار کیا یا ان کو پھانسیاں دیں۔
’’جب شروع کے ہفتوں میں یہ سب کچھ ہونے لگا تو خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ابتدائی انتقام ہو؛ لیکن اب یہ لگتا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جا رہا ہے۔ یہ کارروائیاں اب دوسرے صوبوں تک بھی پھیل گئی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ ایک حکمت عملی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے خلاف کوئی حزب اختلاف نہ رہے جو لوگوں کو تحریک دلا سکے‘‘ یہ کہنا تھا پیٹریشیا گوزمین کا۔
ہیومن رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ طالبان نے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز (اے این ایس ایف) کو ہدایت کی تھی کہ وہ خود کو رجسٹر کرائیں تاکہ ان کو ان کے تحفظ کا ضامن ایک خط جاری کیا جا سکے۔ تاہم، رپورٹ کے مطابق طالبان نے اس سکریننگ کو لوگوں کو گرفتار کرنے، ان کو پھانسیاں دینے اور ان کو غائب کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو مار کر پھینکا جا رہا ہے تاکہ ان کے رشتہ دار اور علاقے کے لوگ ان کی لاشیں اٹھا سکیں۔‘‘
رپورٹ میں باز محمد کی موت کا بھی تذکرہ ہے جن کو قندھار صوبے میں سابق افغان خفیہ کے ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے بھرتی کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق:’’30 ستمبر کو طالبان فورسز قندھار میں ان کے گھر آئیں اور ان کو گرفتار کر کے لے گئیں۔ بعد میں ان کی لاش ملی۔ یہ قتل طالبان کے حکومت پر کنٹرول کے 45 دن بعد کیا گیا۔ اس سے لگتا ہے کہ سینئر عہدیداروں نے یا تو اس قتل کا حکم دیا یا پھر وہ اس واقعے سے باخبر تھے۔‘‘
راتوں کو چھاپے
ہیومن رائٹس واچ نے سابق افغان حکومت پر بھی طالبان اور ان کے حامیوں کی جبری گمشدگیوں کا الزام عائد کیا تھا۔ اب انسانی حقوق کا یہ ادارہ طالبان کو ایسی سرگرمیوں کا مرتکب قرار دے رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، طالبان فورسز تلاشی کی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بشمول راتوں کو چھاپوں کے جن کا بظاہر مقصد سابق فوجی اور سویلین عہدیداروں کو جبری طور پر لا پتہ کرنا ہے۔
طالبان کا ردعمل:
طالبان نے انسانی حقوق کے اداروں کو بتایا ہے کہ انہوں نے اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث افراد کو برخواست کر دیا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس دعوے کے حق میں کوئی شہادت پیش نہیں کی۔
طالبان کے راہنما ملا حسن اخوند نے جو خود کو افغانستان کا وزیراعظم قرار دیتے ہیں، ہفتے کے روز نشر ہونے والی اپنی تقریر میں سابق حکومتی عہدیداروں کو مشکلات پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے ان جرائم کے ارتکاب کے بارے میں تحقیقات کرے۔
طالبان کی داعش کے خلاف کارروائیاں؟
رپورٹ میں طالبان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ داعش کے حامی مقامی گروپ اسلامک سٹیٹ آف خراسان ( داعش۔خراساں) کے حامیوں کو بھی ہدف بنا رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صوبہ جلال آباد کے دارلحکومت میں منگل کے روز اس وقت آٹھ گھنٹوں پر محیط مسلح لڑائی چھڑی جب طالبان فورسز نے، عینی شاہدین کے مطابق، مشتبہ طور پر داعش کے جنجگووں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔
صوبائی انٹیلی جنس چیف طاہر مبارز نے کہا کہ اس لڑائی کے دوران ایک گھر میں موجود ایک خاتون اور ایک مرد نے خود کش جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں وہ ہلاک ہو گئے جبکہ تیسرا شخص گولیوں کے تبادلے میں مارا گیا۔
[اس خبر کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا]