امریکہ نے داعش خراسان کے سینئر لیڈروں اور انہیں مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے، داعش کے چار لیڈروں کو خصوصی عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف جو افغانستان،جنوبی اشیاء اور دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے، ان اقدامات کے اثرات کے بارے میں ماہرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹرمارون وائن بام مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں اور ان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی درست ہے،کیونکہ داعش اور القائدہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب ایک عرصے سے امریکہ کا ہدف رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکی مالی مدد کرنے والوں کو بھی بھرپور طریقے سے ہدف بنایا جانا چاہئے۔ لیکن مالی نظام تک ان کی پہنچ کو روکنے اور اس نظام میں ان کے داخلے کو محدود کرنے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ، بقول ان کے، وہ مالیاتی لین دین کے لئے اپنا حوالہ سسٹم استعمال کرتے ہیں جو کورئیرز کے ذریعے چلتا ہے۔
بقول ڈاکٹر وائن بام، یوں فنڈز جمع کرنے کی ان کی اہلیت زیادہ متاثر نہیں ہو گی۔ لیکن اس کارروائی سے یہ بتانے کی ایک اور کوشش سامنے آتی ہے کہ امریکہ افغانستان چھوڑنے کے باوجود داعش کو ناکارہ بنانے کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے؛ خاص طور پر ایسے میں جب طالبان اس سلسلے میں تعاون بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
وائن بام نے کہا کہ یہ مثبت اقدامات نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ اس وقت ہمارے پاس داعش سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے فضائی کارروائی اور ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا۔ بقول ان کے، ''جب آپ کا سابقہ ایسے لوگوں سے پڑا ہو جو چھاپہ مار جنگ کر رہے ہیں تو ان کو ہدف بنانا بہت مشکل ہو جاتا ہے؛ اور ایئر آپریشن کے امکانات اس اعتبار سے بہت محدود ہیں کہ ہم افغانستان سے نکل چکے ہیں''۔
سلمان جاوید میری ٹائم اسٹڈی فورم سے وابستہ ہیں اور دہشت گردی سے متعلق امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ داعش خراسان نہ صرف خود طالبان کے لئے بڑا خطرہ بن رہے ہیں، بلکہ جنوبی اشیاء اور دنیا بھر کے لئے خطرہ بن کر ابھر رہے ہیں اور اگر دنیا نے نوٹس نہ لیا تو یہ خطرہ اسی طرح قابو سے باہر ہوجائے گا جیسے کبھی القائدہ تھی۔
تجزیہ کار نے کہا کہ امریکہ کو تو یہ کارروائی بہت پہلے کرنی چاہئیے تھی۔ بلکہ اگر اسی وقت سے کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جب بین الاقوامی افواج افغانستان میں تھیں تو اسے قابو میں کرنا زیادہ آسان ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور وہ تمام ممالک جو انسداد دہشت کردی سے متعلق کام کرتے ہیں ان کی اب پوری توجہ داعش خراسان پر ہے۔ اور اب تمام ممالک داعش کے خلاف مشترکہ کوششوں کی جانب مائل نظر آرہے ہیں۔
سلمان جاوید نے کہا کہ اسی ضمن میں، بعض ممالک کی جانب سے طالبان کو بلا واسطہ طور پر تسلیم کرنے کی شروعات بھی ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی افغانستان پر کانفرنس جس میں امریکہ بھی شریک تھا اور خطے کے دوسرے اسٹیک ہولڈر ممالک بھی آئے تھے اور پھر قطر کے ذریعے طالبان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ انتظامات بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ داعش کے خلاف ان تمام ممالک کے درمیان ایک مشترکہ موقف بن رہا ہے جو اس دہشت گرد تنظیم کو دنیا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اور آئندہ چند روز میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کون کون سے اسٹیک ہولڈرز آپس میں مل کر اس خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خود طالبان بھی داعش کے خطرے کو محسوس کرتے ہیں، اور ان کے خیال میں، بہت جلد حالات وہ رخ اختیار کریں گے جب طالبان۔داعش کے خلاف امریکہ اور دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کارروائی پر مجبور ہو جائیں گے۔