پاکستان میں ایچ ائی وی ایڈز کے ماہرین کہتے ہیں کہ صوبۂ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں 2019 میں ایچ آئی وی سے سینکٹروں بچوں کے متاثر ہونے کے انکشاف کے بعد اب ان کی صحت میں کافی بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ میر آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں متعدی امراض کی ماہر ہیں اور ایچ ائی وی ایڈز سے متاثرہ بچوں کے کیسز دیکھتی ہیں۔
بقول ان کے، "ہمیں سندھ کے اندر گزشتہ دو سے تین سالوں میں ایچ آئی وی کے جو بہت زیادہ بیمار بچے ملے تھے، اب وہ ٹھیک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انہیں دوائیاں دی جا رہی ہیں۔ پہلے مجھے بیمار بچوں کو دیکھنے کے لیے زیادہ بلایا جاتا تھا، لیکن اب کم بلایا جاتا ہے"۔
ڈاکٹر فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ افراد کے لیے رتو ڈیرو اور لاڑکانہ میں دو سینٹرز کھولے تھے، وہ بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ وہاں کا سٹاف اب تربیت یافتہ ہے۔
یاد رہے کہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں غیر محفوظ سرنجز کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں بچے ایچ آئی وی کا شکار ہو گئے تھے۔
متعدی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں 2019 میں لاڑکانہ کے اندر ایچ آئی وی کے کیسز سامنے آنے کی وجہ وبا نہیں تھی، بلکہ ان کا سبب نئے اور پرانے انفیکشن تھے۔
ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے لاڑکانہ میں بچوں میں ایچ آئی وی کی ایک وجہ ورٹیکل ٹرانسفارمیشن آف ڈیزیز یعنی ماؤں سے بچوں کو ایڈز کا مرض لاحق ہونا ہے۔ لیکن غیر محفوظ سرنجوں کا استعمال اور غیر محفوظ خون کی منتقلی بھی ان وجوہات میں شامل ہیں، جو ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلاؤ باعث بنیں۔
انہوں نے بتایا کہ "2019 کے بعد پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال میں استعمال ہونے والی سرنج کو صرف ایک بار کے استعمال پر قانون سازی کا کام جاری ہے اور حکومت نے حالیہ برسوں میں اس پر کافی پیش رفت کی ہے" ۔
ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں ایچ آئی وی کے کیسز زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں اور یہ کیسز اس لئے سامنے آتے ہیں کیونکہ اس مرض میں مبتلا بچوں کو مسلسل انفیکشن ہوتا رہتا ہے یا وہ ہر مہینے بیمار پڑ جاتے ہیں، جیسا کہ انہیں نمونیا، دست و اسہال اور جلد کی بیماریاں لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ اگر انہیں علاج کے لیے مسلسل ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا رہے تو پھر ڈاکٹر انہیں مزید ٹسٹوں کے لئے بھیج دیتے ہیں، جس سے ایچ آئی وی کا پتہ چل جاتا ہے۔
“بڑے پیمانے پر کامیاب ٹیسٹ نے متاثرہ بچوں کی شناخت کرنے اور وائرس کی دوسرے افراد کو منتقلی روکنے میں مدد دی ہے"۔
ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایچ آئی وی کے لئے جو دوائیاں آتی ہیں، وہ بچوں اور بڑوں کے لئے مختلف ہوتی ہیں۔ ادویات کے سلسے میں عموماً کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایچ آئی وی پر جو نئی تحقیق ہو رہی ہے، اس کے بارے میں معلومات پاکستان میں دیر سے پہنچتی ہیں۔
نیشنل ایڈز پروگرام کے مطابق، پاکستان ایچ آئی وی کی وبا کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
اصغر الیاس ستی ایسوسی ایشن فار لیونگ ود ایچ آئی وی کے نیشنل کوارڈی نیٹر ہیں. ان کا کہنا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پورے پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ بالغ اور بچوں کی تعداد اندازے سے دو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
اس سال جون کے مہینے تک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے طول و عرض میں قائم 48 ٹریٹمنٹ سینٹرز میں تقریباً 47 ہزار رجسٹرڈ کیسز ہیں۔ ان میں سے تقریباً 26 ہزار افراد ایچ آئی وی کے علاج کے لئے ادویات کا استعمال کر رہے ہیں۔