اقوامِ متحدہ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز سے ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ادارے کے مطابق پاکستان میں مہلک بیماری کی بروقت تشخیص اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے بھی اموات بڑھ رہی ہیں۔
یو این ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے منگل کو جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ اور ویتنام میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد کم ہوئی ہے جب کہ پاکستان اور فلپائن میں انفیکشن میں تیزی سے اٖضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایڈز یا اس سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے چھ لاکھ نوے ہزار افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ دنیا بھر میں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ایک کروڑ 70 لاکھ افراد ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہوئے جو عالمی سطح پر اس سے قبل رپورٹ ہونے والے کیسز سے تین گنا زیادہ ہیں۔ البتہ مشرقی اور جنوبی افریقہ میں 2010 سے اب تک انفیکشن میں 38 فی صد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایچ آئی وی وائرس غیر محفوظ جنسی تعلق اور سرنجز کے دوبارہ استعمال سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے جو ایڈز کا باعث بنتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'نیڈل سرنج پروگرام' کی پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں کوریج بہت مختصر ہے۔
پاکستان نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کو مفروضے پر مبنی قرار دے دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہویے نیشنل ایڈز پروگرام کے منیجر ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی کے مطابق پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی مصدقہ تعداد لگ بھگ 40 ہزار ہے جب کہ ایک لاکھ نوے ہزار کے قریب ایڈز کے مشتبہ مریض ہیں۔
ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادرہ برائے ایچ آئی وی ایڈز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اُن ممالک کو تیکنیکی معاونت فراہم کرے جو ایڈز سے زیادہ متاثر ہیں۔
اس سلسلے میں ان کا مینڈیٹ سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ڈیٹا مکمل کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اچکزئی کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اُن کے بقول ہماری معاشرتی روایات کے تحت لوگ ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کرنے کے لیے خود سے نہیں آتے بدنامی کے خوف سے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 100 کے لگ بھگ تشخیصی مراکز قائم ہیں جہاں بغیر کسی معاوضے کے ٹیسٹ اور علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن اُن کے بقول لوگ اس کے باوجود نہیں آتے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی افراد جن کا ایچ آئی وی مثبت ہے وہ اس بیماری سے لاعلم ہیں اور اسی لیے عالمی سطح پر رواں سال طے شدہ عالمی ایچ آئی وی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔
ڈاکٹر بصیر کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کی وجہ سے بھی ایچ آئی وی کا پروگرام شدید متاثر ہوا۔ انہون نے بتایا کہ مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں مریضوں کو دوائیاں حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اب ان مشکلات پر قابو پا لیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ایسے غیر رجسٹرڈ مشکوک افراد جو کہ ایڈز کا شکار ہو سکتے ہیں ان کے ادارے کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ کیونکہ وہ اس وبا کے پھیلانے کا مزید سبب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بدقسمی سے صوبوں نے ایچ آئی وی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔
ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی کے مطابق پاکستان بین الاقوامی اداروں پر مزید انحصار نہیں کر سکتا ہے لہذٰا اسے اپنے وسائل سے اس موذی مرض کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
اُنہوں نے کہا سندھ اور پنجاب جہاں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہیں یہاں اگلے چار سالوں کے دوران 400 ملین ڈالر مختص کرنے کی ضرورت ہے۔