منگل 14 دسمبر کو بنگلہ دیش کے کم و بیش تمام اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ اپنے ملک کے 'یوم آزادی' سے دو دن قبل ’ شہید بدھی جیبی دیبوش‘ یعنی 'شہید' دانشوروں کی یاد میں منائے جانے والے دن کی کوریج مندرجہ زیل جملوں کے ساتھ کرتے ہوئے نظر آئے۔
’’ آج چودہ دسمبر، منگل کا دن اور بنگلہ دیش کا قومی پرچم سرنگوں ہے اور میرپور میں '’شہید دانشوروں کی یادگار‘' پر ملک کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، صدر حامد احمد اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پھولوں کی چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک سیاہ پرچم لہرایا جا رہا ہے‘‘
بنگلہ دیش کے قومی نصاب میں یہ بات شامل ہے کہ''14 اور 16 دسمبر کے درمیان پاکستان کی فوج اور ان کے حامیوں نے جب یہ جان لیا کہ وہ 1971 کی جنگ جیت نہیں سکتے تو انہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور قابل افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی''۔ پاکستان کے سابق فوجی عہدیدار ایسی کسی منظم مہم کے وجود سے انکار کرتے ہیں، البتہ ان کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کی صورت حال میں جیسے عام طور پر ہوتا ہے، ہم سے بھی غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں۔
یہ "شہدا" کون تھے؟ اور یہ دن بنگلہ دیش میں قومی سطح پر کیوں منایا جاتا ہے؟
بنگلہ دیش کے اخبارات اور آن لائن معلومات کے ذرائع کے مطابق،"ملک کے معروف ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، انجینئروں، صحافیوں، فنکاروں، اساتذہ اور دیگر نمایاں شخصیات کو ان کے گھروں سے مبینہ طور پر گھسیٹ کر نکالا گیا، ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر لےجایا گیا اور ان کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اور ان کو ڈھاکہ کے رئیربازار میں لا کر پھینک دیا گیا"۔
بنگلہ دیش کے نقطہ نظر سے جن گروپوں کو پاکستان کی فوج کے کولیبوریٹر یا حامی و سہولت کار خیال کیا گیا، ان میں شانتی کمیٹی، رضاکار، البدر اور الشمس نامی گروپس تاریخ کے صفحات کا حصہ ہیں۔
گزشتہ برسوں میں بنگلہ دیش کے اندر جن متعدد افراد کو 1971 میں پاکستان سے علیحدگی یا 'آزادی' کی تحریک کے زمانے میں قتل و غارت کے الزامات کے تحت عدالت سے سزائیں سنائے جانے کے بعد پھانسی دی گئی، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انہی گروپوں سے تھا۔
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی نے بالخصوص اور دیگر کئی جماعتوں نے ان پھانسیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی طور پر اس معاملے پر اس وقت کشیدگی سامنے آئی تھی جب 2015 میں ’ انٹیلیکچول مارٹر ڈے‘ کے آس پاس ہی انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری کو پھانسی دینے پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بدقسمتی اور عدالت میں چلائے جانے والے مقدمے کو ناقص قرار دیا تھا۔ اس پر بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے سفیر کو دفترخارجہ طلب کیا تھا۔
یونائیٹڈ نیوز آف بنگلہ دیش کے مطابق جن نامور شخصیات کو 14 سے 16 دسمبر کے دوران "سوچے سمجھے منصوبے" کے ساتھ ہلاک کیا گیا، ان میں پروفیسر منیر چوہدری، ڈاکٹر علیم چوہدری، پروفیسر منیرالزماں، ڈاکٹر فضل ربانی، سراج الدین حسین، شاہداللہ قیصر، پروفیسر جی سی دیو، جے سی گوہا ٹھاکرتا، پروفیسر سنتوش بھاٹیا چاریا، مفضل حیدر چوہدری، صحافی خنداقر ابو طالب، نظام الدین احمد، ایس اے منان (لڈو بھائی) اے این ایم گولام مصطفے، سید نظم الحق اور سیلینا پروین شامل ہیں۔
بعض آن لائن ذرائع کے مطابق 27 مارچ سے جب بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کے ساتھ تحریک شروع ہوئی، 14 دسمبر تک مجموعی طور پر دو ہزار کے قریب اساتذہ اور دیگر پیشہ ور افراد کو قتل کیا گیا لیکن 10 اور 14 دسمبر کے درمیان دو سو کے لگ بھگ بنگالی انٹیلیکچولز ہلاک کر دیے گئے تھے۔
مقتول پروفیسر علیم چوہدری کی صاحبزادی کی وائس آف امریکہ سے گفتگو:
پروفیسر علیم چوہدری کی صاحبزادی ڈاکٹر نزہت چوہدری نے وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے نمائندے انیس احمد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے والد کو ان کے بقول "پاکستان کی فوج کے حامیوں نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ بہت کم سن تھیں"۔
ان کا کہنا تھا:
’’ میرے والد محص ایک جانے پہچانے ڈاکٹر (ماہر امراض تنفس) نہیں تھے، وہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ وہ 1952 کی لیگ موومنٹ کا بھی حصہ تھے۔ وہ ہماری خودمختاری اور بالآخر ہماری آزادی کے لیے تحریک میں پرجوش انداز میں شریک تھے۔ 25 مارچ کو پاکستان کی فوج کے کریک ڈاون کے وقت وہ مشرقی پاکستان میں ہیلتھ کیئر نظام کا حصہ تھے۔ انہوں نے ملک نہیں چھوڑا۔ وہ خفیہ طور پر آزادی کے متوالےجنگجووں کا علاج کر رہے تھے، اور ان کا چیمبر فریڈم فائٹرز کے لیے ایک طرح زیر زمین ملاقاتوں کا مرکز تھا۔ راؤ فرمان علی بنگالی دانشوروں کو ہلاک کرنے کی مہم کا ماسٹر مائنڈ تھا اور انہوں نے اپنی ڈائری میں 19 انٹیلکچولز کے نام تحریر کیے ہیں جن کے ہلاک کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ علیم چوہدری ان میں سے ایک تھے‘‘۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے محقق اور مورخ عقیل عباس جعفری کا اس دن کے پس منظر میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں انہوں نے راؤ فرمان علی سے متعلق یوں تحریر کیا ہے
’’ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد میجر جنرل فرمان علی ان فوجی افسران میں شامل تھے جو جنگی قیدی بنے۔ وہ ان 195 افسران میں بھی شامل تھے جن پر بنگلہ دیش جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے ایسا ممکن نہ ہو سکا اور جب انڈیا میں مقید جنگی قیدی وطن واپس آئے تو اپریل 1974ء میں پاکستان پہنچنے والے ان قیدیوں کے آخری گروپس میں میجر جنرل راؤ فرمان علی بھی شامل تھے۔
پاکستانی فوج نے جی ایچ کیو میں لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان کی قیادت میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تھی جس میں میجر جنرل یا اس کے عہدے کے برابر بحری، برّی اور فضائی افواج کے تین سینیئر افسران بھی شامل تھے۔
اس کمیٹی نے انڈیا سے لوٹنے والے تمام فوجی قیدیوں سے پوچھ گچھ کی۔ اُنھیں ایک سوال نامہ دیا گیا جسے پُر کر کے واپس کرنا ضروری تھا۔ اس کمیٹی نے میجر جنرل راؤ فرمان علی کو بھی طلب کیا اور اُنھیں باعزت طریقے سے تمام الزامات سے بری کر دیا۔‘‘
تو کیا خوف کی صورت حال صرف مقامی لوگوں کے لیے تھی؟
پاکستان کی وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر سید شاہد ہاشمی، بنگلہ دیش کے قیام کے دنوں اور جنگ کے زمانے میں ڈھاکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھے۔
سقوط ڈھاکہ سنہ 1971 کے موضوع پر وائس آف امریکہ اردو سروس کی خصوصی دستاویزی رپورٹس کے ایک حصے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب بنگلہ دیش کی آزادی کا نعرہ لگایا گیا تو ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہم اپنے گلی محلوں میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔
’’ ہم جو غیر بنگالی تھے، اپنے محلوں میں خوفزدہ تھے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی خاتون نے ہمیں آ کر کہا کہ آپ کا جو گھر ہے وہ ہمارا ہو جائے گا‘‘۔
ڈاکٹر نزہت چوہدری پچاس سال قبل پیش آنے والے خونی واقعات کے باوجود بنگلہ دیش کے بطور ایک ملک آگے بڑھنے پر مطمئن نظر آتی ہیں۔ بنگلہ سروس کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔
’’ میرا دل ان باتوں کو سوچ کر خون کے آنسو روتا ہے جو میرے اندر محفوظ ہیں۔ اور مجھے معلوم ہے کہ اس پر ایک دکھ پایا جاتا ہے۔ ہم نے صرف تین ملین (تیس لاکھ) افراد نہیں کھو دیے تھے، ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح ہمارے بانی راہنما کو قتل کیا گیا۔۔۔ لیکن میں ان ساری باتوں کے باوجود بہت پر امید ہوں اور اپنے ملک پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ خوشی اس بات کی بھی ہے کہ 1971 میں ہونے والے قتل کے زیادہ تر واقعات میں ملوث قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا چکا ہے‘‘
لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود، 1971 کی جنگ میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ وہ ایک فارمیشن یونٹ کی قیادت کر رہے تھے، مگر ان کے بقول وہ اگلی سرحدوں پر نہیں تھے۔
جنرل طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ’یوم شہدائے دانشوراں‘‘ منائے جانے اور اس میں پاکستان کی فوج اور اس کے حامیوں کو قصور وار ٹھہرائے جانے کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فوج اور سیاسی قیادت سے غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن ایسی کوئی منظم مہم نہیں تھی جس کا مقصد بنگلہ دیش کی قوم کو ان کے دانشوروں سے محروم کرنا ہو۔
اس سوال کے جواب میں آیا ان تک ایسی خبریں پہنچ رہی تھیں کہ بنگلہ دیش کے حامی دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، جنرل طلعت مسعود نے کہا:
’’ الزام تو ہر طرح کے تھے، لوگ مارے جا رہے ہیں، اطراف سے نقصان ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ جو لوگ پاکستان کے حامی ہیں، ان کو بھی الٹا لٹکایا جا رہا ہے، ان کو مارا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے فوجی، پیرا ملٹری کے لوگ اور رضاکار بنگال کے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ایسا ہوا ہو گا، ضرور ہوا ہو گا کیونکہ جب خانہ جنگی کی صورت حال تھی، بھارت بھی فوجی طور پر ملوث تھا، بہت کچھ ہو رہا تھا‘‘
کیا اب پاکستان کے اندر یہ ادراک ہے کہ 1971 میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا اس سوال پر جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ جب ملک علیحدہ ہو رہے ہوتے ہیں تو ہر قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں۔
’’میرے خیال میں پاکستان تو شرمندہ ہے کہ یہ غلطیاں ہوئیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دانستہ طور پر ہوئیں، کچھ اس طرح کے حالات اور واقعات رونما ہوئے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں تھے اور بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت دونوں طرف جمہوریت نہیں تھی ۔ اس صورت حال میں بہت غلطیاں ہوتی ہیں، ہم سے بھی ہوئیں۔ مگر یہ پاکستان کی فوج کی کوئی منظم مہم نہیں تھی‘‘۔
بنگلہ دیش کے قیام سے عین پہلے دانشوروں کی ان ہلاکتوں کو بنگلہ دیش میں اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس ٹارگٹ کلنگ کا مقصد مستقبل کے بنگلہ دیش کو قومی دانش سے محروم کرنا تھا تاکہ جب ملک معرض وجود میں آئے تو اس کے پاس بڑے بڑے اذہان موجود نہ ہوں۔
وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر نزہت چوہدری کا کہنا تھا کہ تکلیف دہ حالات کے بعد خوشی اس بات کی ہے کہ بنگلہ دیش نے ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے بڑے سنگ میل عبور کر لیے ہیں۔ تاہم اسے اب بھی اپنے بانی ( شیخ مجیب الرحمن) کے نظریات کی تکمیل کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔
جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ اب جب بنگلہ دیش کے قیام کو پچاس سال ہو چکے ہیں، اس ملک نے جمہوری اور معاشی اعتبار سے پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیں یہ دیکھ کر افسوس نہیں خوشی ہوتی ہے۔
’’ ہم یہ نہیں چاہتے تھے وہ علیحدہ ہوں لیکن جب وہ علیحدہ ہو چکے ہیں اور وہ معاشی اعتبار سے ترقی کر رہے ہیں اور ایک ’ نمایاں ملک‘ بن کر ابھر رہے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر بھی ترقی کریں‘‘
جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کو چاہیے کہ تلخ یادوں کو زندہ کرنے کی بجائے انہیں بھلا کر آگے بڑھا جائے ، آپس کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔ اور اپنے اپنے لوگوں کی ترقی، شہریوں کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی پر زور دیا جائے۔
’ ہم چاہیں گے کہ بنگلہ دیش پورے خطے اور دنیا میں اہم کردار ادا کرے۔ تلخ یادوں کو تازہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘
بنگلہ دیش میں "یوم شہادت دانشوران" کے دن بنگہ دیش کے اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز پر خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی سماجی اور سیاسی تنظیمیں اس مسئلے پر سیمینارز اور گفتگو کا اہتمام کرتے ہیں۔
14 دسمبر 2021 کو بھی، جب بنگلہ دیش کے اندر پچاس سال قبل مارے جانے والے دانشوروں کا دن منایا گیا۔ بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے ان کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل نقیب احمد چوہدری اور صدر عبدالحامد کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل ایس ایم صلاح الدین اسلام نے بنگلہ دیش کے شہر میرپور میں "یادگار شہدا" پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے کچھ دیر کے لیے ان "شہدا" کی یاد میں خاموشی اختیار کی۔
بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ ہو یا اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، سبھی اطراف سے نمائندہ راہنماوں نے بھی "شہدا" کی مزاروں پر پھول چڑھائے۔