ریٹائرڈ بریگیڈیئر وقار درانی پاکستانی فوج کے اس دستے کا حصہ تھے جنہوں نے 50 برس قبل سات دسمبر 1971 کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر کے چھمب سیکٹر کا 127 مربع کلو میٹر کا علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ وہ کہتے ہیں، 'تین دسمبر 1971 کی صبح اگلے محاذ پر جانے سے قبل میں نے والد کے نام انتہائی مختصر ترین چھ الفاظ پر مشتمل آخری خط لکھا کہ دعا کیجیے گا۔ غازی بنوں یا شہید'۔
گو کہ اس دوران لڑائی جاری تھی اور پاکستان کا ایک بڑا حصہ اس سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا، لیکن وقار درانی چھمب کی فتح کو ایک اہم معرکہ قرار دیتے ہیں۔
وقار درانی کا کہنا ہے کہ بطور لیفٹننٹ ابھی انہیں چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ انہیں اس محاذ پر بھیج دیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ٹھیک 50 برس بعد اس علاقے کا دورہ بالکل خواب سا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں اب بھی 20 سالہ لیفٹننٹ ہوں اور میں اپنی 30 اہل کاروں پر مشتمل پلاٹون کے سپاہیوں کو آپریشن کے بارے میں ہدایات دے رہا ہوں۔
اپنی پوزیشن سے چند گز دور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے بھارتی فوج نے چھ دسمبر کو پاکستانی بٹالین ہیڈ کوارٹر پر سیکڑوں کلو گرام وزنی بم گرایا تاہم اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
وقار درانی کے مطابق پاکستانی فوج نے سات دسمبر کو چھمب کا علاقہ فتح کیا تاہم انہیں اس محاذ میں ہلاک ہونے والے اپنے چھ سپاہیوں کی ہلاکت کا آج بھی اتنا ہی افسوس ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی فوج اس سے قبل 1965 میں چھمب سیکٹر اور جوڑیاں کے علاقے چھین کر اکھنور تک پہنچ گئی تھی اور بھارت سے 237 مربع کلو میٹر کا علاقہ چھین لیا تھا تاہم جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کے پیشِ نظر وہ سارا علاقہ واپس کرنا پڑا۔
سن 1971 میں پاکستانی فوج نے دوبارہ سے اسی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے 127 مربع کلو میٹر کا علاقہ ایک مرتبہ پھر بھارت سے چھین لیا۔
سوال یہ ہے کہ مزاحمت تو مشرقی پاکستان میں ہو رہی تھی لیکن مغربی پاکستان میں لائن آف کنٹرول پر لڑائی کیسے شروع ہوئی؟
فوجی حکام کے مطابق بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں شورش کو ہوا دینے کے لیے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مدد کر رہی تھی تو ایسے میں پاکستان ایک اور محاذ کو گرم کر کے اُن کی توجہ ادھر مبذول کروانا چاہتا تھا۔
چھمب سیکٹر کی اسٹرٹیجک اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بریگیڈیئر کمانڈر ارسلان مرزا نے بتایا کہ یہاں سے کشمیر کو جانے والی تمام لائن آف کمیونی کیشن جیسے روڈ انفراسٹرکچر وغیر بہت نزدیک ہے۔
اُن کے بقول اگر پاکستان 1971 کی جنگ میں اکھنور تک پہنچ جاتا تو وہ بھارتی کمیونی کیشن لائن کو کاٹ سکتا تھا جس کے ذریعے جموں میں داخلے کی راہ ہموار ہو جاتی۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک دو لخت ہو گیا تھا اور قوم اداس تھی لیکن چھمب سیکٹر کے رہائشی اپنی اس چھوٹی سی کامیابی پر خوش تھے۔
چھمب سیکٹر، کو جنرل افتخار جنجوعہ کے بعد افتخار آباد بھی کہا جاتا ہے ، یہاں کے ایک رہائشی سید ذولفقار احمد کا کہنا ہے کہ اس فتح کے بعد یہاں کے مقامی افراد کو آزادی حاصل ہوئی۔ یہاں اپنے مکان اور زمینیں ہیں۔ اور آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے سویلین آبادی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گولہ باری کی صورت میں انہیں اپنا مال مویشی، گھر اور حتیٰ کہ کھڑی فصلیں چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
سید ذوالفقار کے مطابق یہاں کی زمین زرخیز ہے۔ ہرے بھرے گھنے قد آور درخت یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ گندم، چاول اور سبزیاں اس علاقے کی پہچان ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے اس پار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دونوں اطراف کو دریائے توی تقسیم کرتا ہے جب کہ اس پار کے علاقے کو پلا والاں کہتے ہیں۔
سید ذوالفقار کے مطابق سیز فائر کے بعد اب حالات قدرے بہتر ہیں۔ ہر گھر میں چھوٹے سائز کے بنکر بنائے گئے ہیں۔ ایک لمبی سانس لیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تاہم یہاں زندگی ہمیشہ غیر یقینی ہوتی ہے۔
بریگیڈئیر ارسلان مرزا کے مطابق 1971 کو چھمب کے محاذ پر پاکستانی فوج کے 1500-2000 سپاہیوں کو جان گنوانا پڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ بھارتی فوج اس وقت کے مشرقی پاکستان میں مداخلت کر رہی تھی تو ایسے میں پاکستان نے اپنی دفاعی پالیسی کے تحت مغربی پاکستان میں بھی محاذ کھول دیا۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں بطور پروفیسر تعینات ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ جنگ میں حاصل کی ہوئی کوئی بھی فتح چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی۔ لہذٰا بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اور پاکستان کا بھارت کے کسی حصے پر قبضہ کرنا یہ دونوں مختلف تناظر میں دیکھنے والی چیزیں ہیں۔
البتہ پاکستانی فوج کے ایک سینئر آفیسر لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ وہ یونٹ یا بریگیڈ جو کہ اس آپریشن کا حصہ تھی اگر وہ اس معرکے کو بطور گولڈن جوبلی مناتی ہے تو یقیناً وہ اس کی حقدار ہے۔ تاہم فوج یا قوم بطور مجموعی اس معرکے میں فتح کے شادیانے نہیں بجا سکتی ہے۔
اُن کے بقول 1971 کی جنگ پاکستان کے لیے مجموعی طور پر بہت بڑی شکست تھی جس میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوا جو کہ اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کی صورت میں ایک آزاد ملک کے طور پر موجود ہے۔
دوسری جانب ارسلان مرزا فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ 1971 کی جنگ میں اگر پاکستان نے کوئی علاقہ بھارت سے چھینا تو وہ کشمیر کا علاقہ چھمب سیکٹر ہی ہے جو تاحال اب بھی پاکستان کے قبضے میں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے سانحہ مشرقی پاکستان کے باعث مغربی پاکستان کی تمام تر فتوحات دب کر رہ گئیں۔