"بنگالی ہونا گناہ ہے یہاں، صرف نادرا والے پاکستانی ہیں اور کوئی نہیں ہے۔ ہم اگر مر بھی جائیں تو یہ کہا جائے گا کہ یہ بنگالی ہے اسے الگ کر دو۔"
یہ کہنا ہے عالم احمد کا جو کراچی کے علاقے لانڈھی چھتیس کے بنگالی پاڑے کے رہائشی ہیں۔
عالم احمد کا قومی شناختی کارڈ 2016 سے بلاک ہے اور وہ ابھی تک اس تگ و دو میں ہیں کہ کسی طرح ان کا شناختی کارڈ بحال ہو جائے کیوں کہ اس کے سبب ان کے بیٹوں کے کارڈ بھی بلاک ہو چکے ہیں۔
ان کے بقول ''میرے پاس 1974، 1994 اور 2016 کے تین پاسپورٹس ہیں البتہ بنگالی ہونا جرم ہے، چاہے وہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہی کیوں نہ رہ رہا ہو۔"
عالم احمد نادرا کے دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر اب مایوس ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف بنگالیوں تک محدود نہیں۔
سن 1971 کی جنگ کے بعد ریڈ کراس کے ذریعے پاکستان پہنچنے والے 65 سالہ دلشاد عزیز کا صرف وطن ہی نہیں خاندان بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
دلشاد عزیز بہاری ہیں اور ان کے والد، ایک بھائی اور دو بہنیں بنگلہ دیش میں ہی رہ گئے اور واپس نہ آ سکے۔
اُن کے بقول "جب 71 کی جنگ ہوئی تو وہاں کے بنگالیوں نے ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا، میں نے اپنے سامنے وہ خون خرابہ دیکھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ نفرت اور تعصب اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ بس یوں محسوس ہوتا تھا کہ آج زندگی کا آخری دن ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا وہ اس کا بدلہ ہم سے لے رہے تھے۔ بنگالی کسی صورت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ہم مزید وہاں رہیں، ہمیں ریڈ کراس کی مدد سے کیمپوں میں منتقل کیا گیا تھا یہاں تک کے جنگ کے بعد بھی ہم نے وہاں پاکستانی جھنڈا گاڑھے رکھا کیوں کہ ہم بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم نہیں کر پائے تھے۔
دلشاد عزیز کے مطابق 30 سے 32 برس تو خاندان سے رابطہ ہی نہیں رہا پھر خط و کتابت کے ذریعے بات ہوتی تھی۔ جب فون آیا تو ان کی آواز سنی اور ان برسوں میں ان کے والد وفات پا گئے اور وہ نہ ہی اُن کا دیدار کر سکے اور نہ ہی ان کے جنازے میں جا سکے۔
خاندان کے بٹ جانے کا دکھ آج بھی دلشاد عزیز کے دل میں تازہ ہے۔ وہ 1984 سے لانڈھی میں رہائش پذیر ہیں اور اب ان کے بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، شناختی کارڈ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
'ملازمت سے اس لیے برطرف کیا کہ اردو بولنے والا پاکستانی شہری تھا'
محمد فیروز علی کے والد ریلوے کے ملازم اور مشرقی پاکستان کے شہر کھلنا میں رہائش پذیر تھے۔ 71 کی جنگ کے بعد انہیں بنگلہ دیش میں یہ کہہ کر ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا کہ وہ اردو بولنے والے پاکستانی شہری ہیں۔ لہٰذا وہ اب پاکستان جا سکتے ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے ہمراہ وہ 1974 میں پاکستان تو آ گئے لیکن یہاں انہیں کئی برس تک پاکستانی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ نہ تو سرکاری ملازمت پر بحال کیا گیا اور نہ ہی پینشن دی گئی۔
کئی برس گزر جانے کے بعد آج ان کے بچوں سے بھی شناختی کارڈ بنانے کے لیے 71 کے ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ فیروز علی کو کئی برس کی کوششوں کے بعد قومی شناختی کارڈ حاصل ہوا لیکن ان کے بھائی اب بھی اس سے محروم ہیں۔
کراچی میں 1971 کے بعد بہاریوں کی ایک بڑی تعداد نے رہائش اختیار کی ہے اور ان ہی محلوں میں وہ بنگالی جنہوں نے 1971 کے بعد بھی پاکستان کو اپنا ہی وطن سمجھ کر یہاں رہنے کو ترجیح دی اور خود کو یہاں کی ثقافت اور رہن سہن میں ضم کر لیا یہاں بڑی تعداد میں بستے ہیں۔
ان کے لیے امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب ان کے بچے ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کی شناخت کیا ہے اور اس کا تعین کب اور کیسے ہو گا؟
محمد یوسف کا خاندان 1968 سے پاکستان میں آباد ہیں وہ لانڈھی میں پان کی دکان چلاتے ہیں۔
ان کے مطابق اس شناخت کے بحران نے ان کے بچوں سمیت ہر اس بنگالی نوجوان سے جینے کا حق چھین رکھا ہے جو دوسروں کو حاصل ہے۔
ان کے بقول میرے والدین نے 1973 کے بعد شناختی کارڈ بنوایا جس میں وہ پاکستانی ہیں، میرے شناختی کارڈ میں بھی یہی شہریت ہے لیکن جب میرے بچے شناختی کارڈ بنوانے گئے تو ان سے کہا گیا کہ 71 کا ثبوت لاؤ وہ لائے تو کہا 72 اور 73 کا لاؤ وہ جمع کیے تو کہا 77 کا لاؤ۔ وہ ہمیں بھگاتے رہتے ہیں اور ہم سالہا سال دوڑتے رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں بتائیں کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں یہیں پیدا ہوئے ہیں اسی کے شہری ہیں تو ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوتا ہے؟
محمد یوسف کے مطابق شناختی کارڈ نہ ہونے کے سبب بنگالی نوجوانوں کو پولیس اگر پکڑ لے تو مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ان کے محلے کا ایک لڑکا ناحق سزا پوری کر کے آیا ہے جسے پولیس نے اچانک پکڑ لیا تھا اور وہ پانچ برس جیل میں رہا۔ اس کے والدین بھاگتے رہے، پھر عدالت میں فیصلہ ہوا جس میں کچھ لوگوں نے بیان دیا کہ اس لڑکے کے خاندان کو وہ 50 برس سے جانتے ہیں تب کہیں جا کر وہ بے گناہ ثابت ہوا کہ وہ بھی اس ملک کا ہی شہری ہے۔
محمد یوسف کا کہنا ہے کہ وہ لڑکا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بے وجہ سزا بھگتتا رہا۔ جب ہمارے بچوں کے شناختی کارڈ نہیں بنیں گے تو وہ کیسے ان محلوں سے نکل کر شہر میں روزگار اور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے۔
قاری شفیع اللہ بھی بنگالی ہیں اور کئی دہائیوں سے لانڈھی میں آباد ہیں وہ 25 برسوں سے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ پہلے با آسانی بن گیا تھا لیکن جب دوبارہ اجراء کا مرحلہ آیا تو ان سے بہت سی ایسی دستاویزات طلب کیں جو ان کے پاس موجود نہیں تھیں۔
بعد ازاں انہوں نے وفاقی محتسب سے رجوع کیا اور اپنا کارڈ بنوایا۔ ان کے تمام بچوں کے کارڈ بھی بنے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ بہاری اور بنگالی جو ناخواندہ ہیں انہیں نادرا تنگ کرتا ہے کیوں کہ جو دستاویزات یہاں ان کمیونیٹز کے پاس موجود ہیں وہ مشرقی پاکستان کی ہیں، جس کی تصدیق اب نادرا میں بیٹھے افراد کیسے کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کی بنی دستاویزات تک کا ریکارڈ چیلنج ہو جاتا ہے یا پھر کہا جاتا ہے کہ درست نہیں ہے یا ادارہ اب موجود نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا ریکارڈ ہمارے پاس اپ ڈیٹ نہیں تو انہیں 50 برس پرانے کاغذ کیسے سمجھ آئیں گے؟ یہ صرف تنگ کرنے کے بہانے ہیں۔
بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے 2008 میں 1971 سے سابقہ مشرقی پاکستان کے کیمپوں میں آج بھی رہائش پذیر تین لاکھ بے وطن مہاجرین کو شہریت اور ووٹ کا حق دیا تھا۔
ان مہاجرین میں وہ اردو بولنے والے بھی شامل ہیں جو 1947 کی تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی پاکستان جا کر آباد ہوئے تھے اور جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود وہیں رہنا بہتر سمجھا۔ جس کے بعد وہاں کی حکومتوں نے انہیں کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
لیکن پچاس برس گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی فیصلہ پاکستان میں نہیں لیا گیا۔
جنگ کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب ان مہاجرین کی آبادکاری کا کام شروع کیا اور 1973 کے آئین کے بعد قومی شناختی کارڈ کا اجراء کیا تو سیکڑوں بنگالی اور ہجرت کر کے پاکستان پہنچنے والے بہاریوں کو شہریت حاصل ہو گئی تھی۔
اس کے بعد ان افراد کے بچوں کو بھی والدین کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر شہریت کے حقوق حاصل ہوئے تھے لیکن 2002 میں جب نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا اس وقت بھی ملک بھر میں پرانے شناختی کارڈ اور ب فارم پر کارڈ کا اجراء کر دیا گیا تھا۔
لیکن نادرا کے جاری کردہ کارڈ کی مدت جب 10 برس بعد پوری ہوئی تو ایسے شہری جو بہاری اور بنگالی تھے انہیں دوبارہ اجراء کے موقع پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے پرانی دستاویزات طلب کی گئیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ رکاوٹ اس لیے بھی آئی کہ 1980 کے دہائی میں سوویت یونین اور افغان جنگ کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد ہوئی جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے پاکستان کی شہریت حاصل کی اور شناختی کارڈ بنوا لیے۔
اس مسئلے کو دیکھتے ہوئےجانچ پڑتال کا عمل شروع ہوا ہے جس میں افغان شہریوں کی وجہ سے بہاری اور بنگالیوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک روا رکھا جانے لگا۔
پاکستان میں ایک 'ایلین رجسٹریشن' قانون موجود ہے جس کی رو سے وہ غیر ملکی جو پاکستان میں 90 روز یا اس سے زائد کا قیام رکھنا چاہتے ہوں انہیں یہ کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔
حکومتِ پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہونے اور ان کی اجازت سے ایسے شہری کو سفر، تعلیم، روزگار اور بینک اکاؤنٹ کھولنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے، تاہم شہریت اور ووٹ کا حق 'ایلین' شہری کو حاصل نہیں۔ یہ کارڈ افغان، بہاری اور بنگالی شہریوں کو بھی جاری ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں نیچرلائزیشن کا قانون بھی موجود ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ امریکہ، کینیڈا کی طرز کا ایسا قانون ہے جس میں ایسے تارکین وطن یا وہ مہاجرین جو کئی برسوں سے کسی ریاست میں رہائش پذیر ہوں اور ان کے بچے جو اس ملک میں پیدا ہوں، انہیں قانونی طور پر شہریت کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ چاہے ان کے والدین کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، پاکستان کے اس قانون کو نادرا بھی تسلیم کرتا ہے۔
چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق وہ ذاتی طور پر لفظ 'ایلین' کو پسند نہیں کرتے یہ قانون ان کے آنے سے پہلے کا بنا ہوا ہے وہ اس پر سماجی تنظیموں، حکومتی اداروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر بات چیت کر رہے ہیں کہ ایسے بہاری اور بنگالی شہری جن کی تیسری نسل اب اس ملک کا حصہ ہے اسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نیچرلائزیشن کا قانون موجود ہے جس سے اکثریت واقف نہیں، اس میں پانچ اور سات برس بعد اپلائی کیا جا سکتا ہے اور وزارتِ داخلہ میں اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔
'جنگ کے نتیجے میں کئی نسلیں برباد ہو گئیں'
کراچی میں بسے بنگالیوں کا یہ کہنا ہے کہ 1971 کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہیں کبھی بھی کسی قومیت یا حکومت کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ بنگلہ دیش لوٹ جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں جو لسانی فسادات ہوئے اور جو بنگالی اردو بولنے والوں کا وجود بنگلہ دیش میں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ آج وہی دو زبانیں بولنے والے شہری مل کر ان محلوں کو آباد کیے ہوئے ہیں۔
دلشاد عزیز کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں کئی نسلیں برباد ہوگئیں، بہت سی ایسی باتیں ہیں جو دل میں ہیں اور دل میں ہی رہ جائیں گی۔
ان کے بقول "میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ کاش ہم الگ نہ ہوتے وہ بھی ہمارے اپنے تھے، وہ ہمارا گھر تھا، جائے پیدائش تھی، ملک دو ٹکڑے ہو گیا یوں سمجھیں کہ ہم بکھر کر رہ گئے۔"
محمد عالم بنگالی پاڑے میں سنار ہیں۔ ان کے مطابق یہاں ایک سیاسی تنازع تھا جس کی پاداش میں پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ یہ ایک غلط فہمی تھی کہ مجیب الرحمٰن ملک توڑنا چاہتا تھا اگر اس کے مطالبات کو سمجھا جاتا اور کوئی بہتر سیاسی حل نکال لیا جاتا تو آج لاکھوں خاندان یوں دربدر نہ ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی لڑائی تھی جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا، ہم تو پاکستان میں مشرقی پاکستان سے بھی پہلے کے قیام پذیر ہیں ہمارے دادا، والدین کی قبریں یہاں ہیں، ہم یہیں کی زبان بولتے ہیں، پاکستانیوں کی طرح رہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کبھی ہمارا حصہ تھا اب یہ ماضی کی بات ہے۔ اگر آج بھی ہمیں کبھی بنگلہ دیش جانا پڑے تو ہم خود کو بنگالی نہیں پاکستانی ہی کہیں گے کیوں کہ ہم اس ملک کے شہری ہے۔