عالمی ادارہ خوراک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ جب افغانستان میں آئندہ چند روز کے اندر موسم سرما مزید شدت اختیار کرے گا اور دور دراز علاقوں تک رسائی ممکن نہیں رہے گی، ایسے میں اگر اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو پھر دیر ہو چکی ہو گی اور افغانستان کے لاکھوں لوگوں کو بھوک کے بحران کے سانحے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔
اس المیے کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے عالمی ادارہ خوراک افغانستان میں اپنی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کام کو تیز کر رہا ہے۔ ادارے نے، جس نے 2021ء کے دوران ایک کروڑ 50 لاکھ افغانوں کو خوراک کی صورت میں امداد فراہم کی تھی، کہا ہے کہ آئندہ سال اس امداد میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی جانب سے دو کروڑ 30 لاکھ افغان عوام کو غذائی امداد فراہم کی جائے گی۔
عالمی ادارہ خوراک کے ترجمان ٹومسن فیرے نے کہا ہے کہ افغان معیشت کی حالت دگرگوں ہے جب کہ کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کھانے پینے کی اشیا خرید سکیں۔
بقول ان کے، ''ایسے وقت جب موسم سرما کی شدت برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے، متاثرہ خاندان حالات سے مایوس ہو چکے ہیں۔ دس خاندانوں میں سے نو بمشکل سستی ترین غذا خرید پاتے ہیں، جو غذائیت کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہے کہ مہنگی خوراک خرید سکیں۔ دس میں سے آٹھ لوگ کم خوراک لے سکتے ہیں، جب کہ 10 میں سے سات مانگے تانگے کی خوراک پر گزارا کر رہے ہیں''۔
عالمی ادارہ صحت کی اطلاع کے مطابق، اس موسم سرما کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچے، جن کی تعداد 32 لاکھ ہے، غذائیت کی شدید کمی کے شکار ہوں گے۔ اس سال غذائیت کے فقدان کی صورت حال میں گھرے لگ بھگ 10 لاکھ بچوں کو غذائیت کی کمی کی بیماریوں کا علاج فراہم کیا گیا، اس کے علاوہ پانچ لاکھ حاملہ خواتین اور بچوں کو دودھ پلانے والی ان ماؤں کا علاج کیا گیا جنہیں غذائیت کی کمی کے مسائل کا سامنا تھا۔
ٹومسن فیرے نے کہا ہے کہ سال 2022ء میں عالمی ادارہ صحت اپنے جاری پروگرام کی سطح میں اضافے کا ادارہ رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اسکول کے بچوں کو کھانا فراہم کریں، گھریلو راشن کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دیں، اور ملک بھر کے 10 لاکھ بچوں کو نقدی کی صورت میں امداد میسر کریں۔
ان کے الفاظ میں ''ضروریات بے تحاشہ ہیں۔ اور تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں کثیر رقم درکار ہو گی۔ افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر نے صورت حال کو انتہائی سنگین بتایا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ دراصل یہ بھوک اور بے روزگاری کا طوفان ہے، جس نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے''۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ آئندہ سال دو کروڑ 30 لاکھ افراد کی زندگی بچانے کے کام کے لیےدو ارب 60 کروڑ ڈالر کی فوری ضرورت ہو گی۔