افغانستان کی کرنسی 'افغانی' کی قدر میں تیزی سے کمی ہونے سے ملک کی معاشی حالت دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے جب کہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
رواں ہفتے ڈالر کے مقابلے میں افغانی کی قدر میں ایک دن میں 11 فی صد کمی دیکھنے میں آئی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
رواں سال اگست کے وسط میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے بین الاقوامی برادری نے افغانستان کے بیرونِ ملک اثاثے منجمند اور تمام بین الاقوامی فنڈنگ روک دیے تھے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔
ملکی معیشت کا بڑا حصہ بیرون ملک سے آنے والی امداد پر انحصار کرتا ہے۔
اگست میں آئی ایم ایف نے 45 کروڑ ڈالر قرض کی قسط بھی روک دی تھی۔ آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ قسط روکنے کی وجہ ملک کے نئے حکمرانوں کے بارے میں حالات کا غیر واضح ہونا ہے۔
غیر ملکی سفیروں کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت معیشت کے ڈوبنے اور انسانی المیے کے دہانے پر ہے۔
افغان شہر ہرات کے 28 برس کے دکاندار سید امید نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں لابتہ چیزوں کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس صبح سے کوئی صارف کوئی چیز خریدنے نہیں آیا۔ انہیں خدشہ ہے کہ حالات ایسے رہے تو وہ دکان کا کرایہ اور گھر کا خرچ نہیں چلا سکیں گے۔
افغانستان کے سینٹرل بینک کے سابق قائم مقام گورنر خان افضل ہڈوال نے ’اے پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان پر عالمی پابندیوں اور ملکی اثاثوں کے منجمند کرنے کی وجہ سے بیرون ملکی امداد پر بہت حد تک منحصر افغان معیشت مکمل تباہی کی جانب گامزن ہے جس کی وجہ سے افغانی کی قیمت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے موقع پر امدادی ایجنسیوں، بین الاقوامی کمیونٹی اور امریکہ کو اس بحران میں ملک کی مدد کرنی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بین الاقوامی کمیونٹی کے خدشات کو سمجھتے ہیں لیکن افغان عوام کی اس بحران کے دوران مدد کے طریقہ کار موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے مطابق ملک کی تین کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں دو کروڑ 28 لاکھ افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں اور ملک میں خوراک کا شدید بحران ہے۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا، طالبان کی حکومت اور شدید خشک سالی کی وجہ سے بہت سے لوگ ملازمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ملکی کرنسی کی گرتی قیمت کی وجہ سے بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔
دکان دار جعفر آغا نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ تین ماہ پہلے جو کوکنگ آئل کا ڈبہ 700 افغانی میں ملتا تھا وہ آج 1800 افغانی کا ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے اس لیے وہ کچھ بھی خرید نہیں پا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے۔
ہرات کی منی ایکسچینج میں تاجر کرنسی کی قیمت کو مسلسل فون پر دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بولیاں لگا رہے ہیں۔
’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے ایک تاجر سید نادر نے بتایا کہ بدھ کا روز ان کے لیے اچھا نہیں تھا۔ انہوں نے 105 افغانی کے عوض ڈالر بیچے لیکن انہیں پھر 113 افغانی میں ڈالر خریدنے پڑے کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ افغانی کی قیمت مزید گر جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حالات بہت خراب ہیں اور کرنسی کی قیمت گرنے کی وجہ سے ڈالر ملنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اگست کے مہینے میں 80 افغانی کی قیمت پر ایک ڈالر مل رہا تھا جو اکتوبر تک 90 تک پہنچ چکی تھی۔
اتوار کے روز ڈالر کی قیمت 110 افغانی تھی جو پیر کو 123 افغانی تک پہنچ گئی۔
جمعرات تک قیمت کچھ کم ہوئی اور ایک ڈالر کے عوض 100 افغانی مل رہے تھے۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا۔