ایسے میں جب طالبان پر امریکی پابندیاں جاری ہیں، امریکہ نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر امریکی اور اقوام متحدہ کے اہل کاروں کے لیے استثنیٰ کی اجازت دی ہے تاکہ طالبان کے ساتھ سرکاری طور پر کچھ کاروبار کیا جا سکے، اس اقدام کا مقصد افغانستان کے لیے امدادی اشیا کی رسد جاری کرنا ہے، تاکہ درپیش انسانی بحران کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔
تاہم، ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آیا اس اقدام کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جانب سے تجویز کردہ 60 لاکھ ڈالر کی ادائیگیوں کی راہ ہموار ہو گی، جو قدغن سیکیورٹی کے طور پر اسلام نواز گروپ پر لگائی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے، رائٹرز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اس بات کا خواہاں ہے کہ آئندہ سال سے طالبان کے زیر سرپرستی وزارت داخلہ کے عملے کو ماہانہ تنخواہوں کے مد میں اعانت کی سہولت فراہم کی جائے گی، جو عالمی ادارے کی تنصیبات کی نگرانی کرتے ہیں۔ انھیں ماہانہ خوراک کا الاؤنس دیا جائے گا، یہ تجویز سامنے آنے کے بعد یہ بحث چھڑی تھی آیا ایسا کرنا امریکہ کی جانب لگائی گئی پابندیوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں تو نہیں آتا۔
امریکی محکمہ خزانہ نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے کہ آیا کوئی نیا لائسنس جاری ہو گا جس کے مطابق طالبان پر عائد امریکی پابندیوں کے باوجود اقوام متحدہ ایسی ادائیگیاں کر سکے گا۔
کئی برسوں سے طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دیے جانے کے بعد امریکہ نے اثاثے منجمد کرنے اور امریکیوں کو لین دین سے روکنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔
بدھ کے روز امریکی محکمہ خزانہ نے جنرل لائسنس جاری کیا جس کا مقصد افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امدادی رسد جاری کرنے میں نرمی برتنا شامل ہے۔
دو عدد لائسنس جاری ہونے کے بعد اب امریکی اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور اقوام متحدہ کے اہل کار سرکاری کاموں کے لیے لین دین کر سکتے ہیں بشمول طالبان یا حقانی نیٹ ورک۔
تیسرے لائسنس کے ذریعے کچھ سرگرمیوں کے لیے جن میں انسانی ہمدردی منصوبے شامل ہیں، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو امریکی پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے جو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کام کرنے سے متعلق ہیں۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے کہا ہے کہ افغانستان کی معیشت کو مزید سکڑنے سے بچانے کے لیے طالبان کو اقدام کرنا ہو گا۔
اہل کار نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ''جس بات کی ہم کوشش کر سکتے ہیں اور جو ہم کریں گے وہ یہ کہ انسانی بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے افغان عوام کو وسائل فراہم کریں گے اور ان عام لائسنسوں کی مدد سے ہمیں اجازت ہو گی کہ ہم ان تنظیموں کو کام جاری رکھنے دیں''۔
جب اگست میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس کے بعد افغانستان میں معیشت کا بحران شدت اختیار کر گیا، ایسے میں جب امریکی افواج کےانخلا کا کام جاری تھا اور مغربی حمایت یافتہ سابق حکومت معزول ہو گئی تھی۔
اس کے بعد امریکہ اور دیگر عطیہ دہندہ حلقوں نے مالیاتی اعانت بند کر دی اور افغانستان کی نقدی کی صورت کے اثاثوں کو منجمد کیا گیا جن کی مالیت 9 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لگ بھگ دو کروڑ 30 لاکھ لوگ،جو کہ کُل آبادی کا 55 فی صد بنتے ہیں، انھیں شدید سطح پر خوراک کی قلت درپیش ہے، جب کہ تقریباً 90 لاکھ افراد ایسے ہیں جنھیں قحط کی صورت حال کا خطرہ لاحق ہے، ایسے میں جب موسم سرما مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ایک بیان میں، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ''امداد کی سطح بڑھانے کے کام میں ہم اپنے ساتھیوں کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے، تاکہ اس ضرورت کے وقت درکار ضروری امداد فراہم کی جا سکے''۔
دوسری جانب اس بحران کے حل میں مدد دینے کے لیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں عطیہ دہندگان، اعانتی گروپوں اور مالیاتی اداروں کو استثنیٰ دیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کر سکیں جب کہ اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں اور متعلقہ اداروں کے اثاثے منجمد کیے گئے تھے۔
جیفری دلورینتس، اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے ایک سینئر مشیر ہیں۔ نئے اقدام کی منظوری پر زور دیتے ہوئے، انھوں نے کہا ہے کہ یہ استثنیٰ محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اور اِسی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں کے لیے ہے، تاکہ افغانستان میں بنیادی انسانی ضروریات پوری کی جا سکیں، جس کام کا کونسل کی جانب سے ایک سال بعد جائزہ لیا جائے گا''۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کو بتایا کہ قرارداد کی منظوری ایک ''اچھا قدم'' ہے۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ قرارداد کی منظوری کے بعد طالبان سے منسلک تنظیموں کے خلاف عائد مالی پابندیاں اٹھانے کے عمل میں ''تیزی آئے گی''۔
ادھر طالبان کے معاون چیف آف اسٹاف کے ترجمان، بلال کریمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا، جس میں افغانستان میں مشکل میں پھنسے افراد کی مددکے لیے کہا گیا ہے۔
ان کے الفاظ میں ''کافی عرصے تک جاری رہنے والی لڑائیوں، قحط سالی اور دیگر معاشی مشکلات کے نتیجے میں، خاص طور پر اس آزمائش کے وقت یہ ایک انسانی ذمہ داری ہے کہ افغانوں کی اور اقوام متحدہ کی مثبت طریقے سے اعانت کی جائے ،تاکہ افغانستان کے عوام کی مدد کی جا سکے''۔
ایک بیان میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، ٹھامس ویسٹ نے کہا ہے کہ ''آج صبح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا کہ افغان عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید امداد فراہم کی جائے۔ عالمی ادارے کی جانب سے دیا گیا پیغام واضح ہے۔ ہم افغانوں کی مدد کرنے کے کام میں متحد ہیں''۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے ایک سابق معاون سفیر، جیفری ڈریلنٹس نے طالبان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ امداد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی بھی تنظیم کو بلینک چیک جاری کیا جائے،جنھیں بیرون ملک منتقل کرکے وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں۔
[اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے]