بالغ امریکیوں کی رائے پر مبنی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کے اندرجمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو خطرات لاحق ہیں۔
سی بی ایس نیوز کی طرف سے کرائے گئے سروے کے نتائج اتوار کو جاری کیے گئے جن میں 66 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو کسی حد تک یا بڑی حد تک خطرات کا سامنا ہے۔ جن افراد سے رائے لی گئی ان میں سے 33 فیصد کا کہنا تھا کہ جمہوریت محفوظ ہے۔
رائے عامہ پر مبنی یہ جائزہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی کانگریس پر گزشتہ سال چھ جنوری کو ہونے والے حملے کو ایک سال مکمل ہونے میں دو دن باقی ہیں۔ چھ جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا تھا جب اراکین کانگریس وہاں جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کے لیے جمع تھے۔
جن افراد نے اپنی رائے دی ہے ان میں سے 83 فیصد نے امریکی کانگریس پر دھاوا بولنے والوں کے اقدام کو ناپسند کیا۔
سروے میں زیادہ تر نے اس حملے میں ملوث لوگوں کے اقدام کی درجہ بندی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے طور پر کی اور کہا کہ یہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کی ایک کوشش تھی۔ اور یہ ایک ایسا احتجاج تھا جو حد سے بہت آگے نکل گیا تھا۔
امریکہ میں اس سال نومبر میں کانگرس کے وسط مدتی انتخابات ہوں گے جن کی یکی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ ایسے میں سی بی ایس نیوز کے اس سروے میں شامل 68 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ چھ جنوری کے حملے کو ملک کے اندر بڑھتے ہوئے تشدد کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 62 فیصد افراد کی نظر میں یہ امکان موجود ہے کہ سال2024 کے صدارتی انتخاب میں ہارنے والا فریق تشدد کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔
سروے میں سوالات کے جواب دینے والے دو تہائی افراد کا کہنا ہے کہ وہ جو بائیڈن کو سال 2020 کے انتخابات کا اصل فاتح سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ اور واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے پیر کے روز جاری کردہ سروے رپورٹ میں بھی یہی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے سروے کے مطابق جن لوگوں نے اپنی رائے دی ان میں سے 45 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ کانگریس کی عمارت پر حملے کی زیادہ تر ذمہ داری اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے۔ جب کہ 28 فیصد کہتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہتے ہیں کہ بعض اوقات حکومت کے خلاف شہریوں کے اقدامات اپنا جواز رکھتے ہیں۔ تازہ ترین سروے میں ایسے افراد کی تعداد 34 فیصد ہے جب کہ سال 2015 میں یہ تعداد 23 فیصد اور 1995 میں 13 فیصد تھی۔