امریکہ میں موجودہ اور سابق فوجیوں سے متعلق ایک نئی جائزہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے فوجیوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ حالیہ واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس میں کیپیٹل ہل پر حملہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس طرح کے واقعات نے انتہا پسند عناصر کو منظم ہونے میں مدد فراہم کی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق یونی ورسٹی آف میری لینڈ کے انسدادِ دہشت گردی کے مطالعے کے لیے بنائے گئے پروگرام 'اسٹارٹ' کے نیشنل کنسورشیئم نے بدھ کو ایک نئی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں 354 ایسے افراد کا تجزیہ کیا گیا ہے جن کا فوج سے تعلق ہے یا رہا ہے اور انہیں انتہا پسندانہ نظریات سے منسلک مجرمانہ اقدامات پر الزامات کا سامنا ہے یا اس ضمن میں انہیں سزا سنائی گئی ہے۔
تجزیے میں یہ دیکھا گیا کہ 1990 سے 2010 کے عرصے میں ہر سال ایسے کیسز کی اوسطاً تعداد جو سات ہوا کرتی تھی، پچھلی ایک دہائی میں بڑھ کر 21 ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ سال 2017، 2020 اور 2021 میں دیکھا گیا ہے۔
مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام برسوں میں ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے امریکہ میں انتہا پسندوں کی بڑی تعداد کو منظم کیا۔ ان واقعات میں سال 2017 میں شارلٹسویل میں 'یونائیٹ دا رائٹ' نامی ریلی، 2019 میں کرونا کی عالمی وبا، 2020 میں نسلی تعصب کے خلاف انصاف کے لیے ہونے والے مظاہرے اور صدارتی انتخابات شامل ہیں۔
اسی طرح 2021 میں چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان سب واقعات میں سب سے بڑا متحرک واقعہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی کانگریس کا محاصرہ کرنا تھا جس کا مقصد ڈیموکریٹ رہنما جو بائیڈن کی انتخابات میں فتح کی توثیق کے عمل کو روکنا تھا۔
اس محاصرے کے ساتھ تعلق میں جن 563 افراد کو الزامات کا سامنا ہے ان میں سے 15 فی صد کا تعلق امریکہ کی فوج سے ہے۔
اگرچہ تجزے کے مطابق ان 15 فی صد میں سے زیادہ تر اس وقت امریکی فوج کے لیے کام نہیں کر رہے تھے جب یہ حملہ ہوا تھا۔
'اسٹارٹ' کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کانگریس کے محاصرے میں فوج سے تعلق رکھنے والوں میں سے 78 فی صد ایسے تھے جو کسی انتہا پسند نظریے سے جڑے ہوئے تھے اور اس وقت وہ فوج کے لیے کام نہیں کر رہے تھے جب ان کی سوچ میں انتہا پسندی غالب آئی تھی یا وہ گرفتار ہوئے تھے۔
اس رپورٹ کے شریک مصنف مائیکل جیسن نے رپورٹ میں اخذ کردہ نتائج کے بارے میں ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ زیادہ تر افراد جو ہمارے ڈیٹا میں موجود ہیں، اس وقت انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئے جب وہ فوج کو چھوڑ چکے تھے۔ لہٰذا جب فوج کا پسِ منظر رکھنے والوں میں انتہا پسندوں کے مسئلے پر بات کرتے ہیں تو اس سے بنیادی طور پر مراد سابق فوجی ہوتے ہیں۔
گزشتہ رپورٹوں میں تسلسل
'اسٹارٹ' کی تجزیاتی رپورٹ کے نتائج بظاہر گزشتہ رپورٹوں کا تسلسل معلوم ہوتے ہیں جن میں امریکی فوج کے اندر انتہا پسندی پر نظر ڈالی گئی تھی۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) نے گزشتہ اپریل میں جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں بتایا تھا کہ حاضر سروس امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد جو دہشت گردی کے منصوبوں میں ملوث ہے، کم ہے مگر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ادارے نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ڈیٹا کو ایک انتباہ کے طور لیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ چیلنجز رہیں گے اور انتہاپسند نیٹ ورکس چاہتے ہیں کہ امریکہ کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر ان کے لوگ موجود ہوں۔
ادارے نے مزید کہا تھا کہ انتہا پسند موجودہ اور سابق اہلکاروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے متحرک انداز میں کام کر رہے ہیں۔
امریکی فوج میں انتہا پسند رجحان سے متعلق دو نئی رپورٹوں میں اس پریشان کن رجحان اور اس سے متعلق ڈیٹا کے فقدان کے بارے میں تشویش کا اظہار اس کے محض کچھ دنوں بعد ہی کیا گیا ہے جب امریکہ کے محکمۂ دفاع نے فوجی رینکس کے اندر سے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان سامنے آیا تھا۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے فوج کی صفوں کے اندر انتہا پسندی سے لڑنے کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ رواں برس اپریل میں انہوں نے ایک میمورنڈم جاری کیا تھا جس میں فوج کے اندر دخل انداز ہونے والے گروپوں کو فوری طور پر ادارے سے دور رکھنے پر زور دیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ لائیڈ آسٹن نے فوج کو خیرباد کہنے کی تیاری کرنے والوں کے لیے تربیتی عمل کو بڑھانے پر بات کی تھی۔
لائیڈ آسٹن نے اس میمورنڈم میں تحریر کیا تھا کہ وردی کے اندر خدمات انجام دینے والوں کی اکثریت اور ان کے سویلین ساتھی ایمانداری کے ساتھ خدمات انجام دیتے ہیں لیکن فوج کے اندر کسی بھی طرح کا انتہا پسندانہ رویہ بہت زیادہ اثرات کا حامل ہے۔
فوج کے اندر انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پینٹاگون کے منصوبے
امریکہ کے وزیرِ دفاع نے فوری طور پر ایک لائحہ عمل ترتیب دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ انتہا پسندوں کا ایک چھوٹا سا گروپ بھی ادارے کے لیے بہت بڑے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
پینٹاگون کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ انتہا پسند گروپوں نے ملٹری سروسز کے اندر دخل اندازی کی کوشش کی ہے اور حاضر سروس فوجیوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی ہے۔
محکمۂ دفاع کے قائم مقام انسپکٹر جنرل کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق فوج کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے کو فنڈز میں کمی اور مفادات کے ممکنہ ٹکراؤ کا بھی سامنا ہے۔