پاکستان میں حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کے لیے اسی کی شرائط کے مطابق حال ہی میں منی بجٹ پیش کیا ہے جس پر ملک کی اپوزیشن جماعتیں اور بعض معاشی ماہرین تنقید کر رہے ہیں۔
البتہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ صرف غیر ضروری درآمدات کم کرنے کے لیے لایا گیا ہے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی لائی جا سکے۔
کیا واقعی منی بجٹ لانا حکومت کی مجبوری تھی؟ اور کیا اس کا متبادل بندوبست کیا جا سکتا تھا؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے مختلف معاشی ماہرین سے بات کی ہے۔
معاشی اُمور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ بجٹ سے مراد یہ ہے کہ حکومت کے اخراجات کیا ہوں گے اور ٹیکسز کی مد میں وہ کتنی رقم اکٹھی کرے گی۔
اُن کے بقول حکومت کو منی بجٹ اس لیے لانا پڑا کیوں کہ گزشتہ برس جون میں آنے والے بجٹ کے حوالے سے اس کے تخمینے درست ثابت نہیں ہوئے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ گزشتہ برس فروری میں آئی ایم ایف کے ساتھ وزارتِ خزانہ کا معاہدہ ہو گیا تھا اور اس وقت عبدالحفیظ شیخ مشیرِ خزانہ تھے اور اس معاہدے کی آئی ایم ایف کے بورڈ نے 24 مارچ کو منظوری بھی دے دی تھی۔
اُن کے بقول اس معاہدے کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی جانب سے 50 کروڑ ڈالر کی قسط بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع ہو گئی تھی۔ لیکن اچانک حفیظ شیخ کو تبدیل کر کے شوکت ترین کو مشیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان 2018 کے بعد سے اب تک اپنی معاشی ٹیم میں تواتر سے تبدیلیاں کرتے رہے ہیں۔ ابتداً اُنہوں نے اپنے بااعتماد ساتھی اسد عمر کو وزیرِ خزانہ مقرر کیا تھا، تاہم چند ہی ماہ بعد اُنہیں ہٹا کر عبدالحفیظ شیخ کو مشیرِ خزانہ لگایا گیا۔
بعدازاں وفاقی وزیر حماد اظہر کے پاس بھی یہ قلم دان رہا اور پھر قرعہ فال شوکت ترین کے نام نکلا۔
'شوکت ترین کی جادو کی چھڑی بھی نہیں چلی'
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ جب شوکت ترین آئے تو اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی سمیت دیگر ٹیکس بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ وقت اور حالات نے پھر ثابت کیا کہ شوکت ترین کی 'جادو کی چھڑی' بھی نہیں چلی۔
اُن کے بقول یہاں سے آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان بداعتمادی بڑھی کیوں کہ آئی ایم ایف شخصیات کے ساتھ نہیں بلکہ وزارتِ خزانہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر بھی لے لیے اور آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری نہیں کیں۔ لہذٰا اُنہوں نے چھ ماہ کے لیے پروگرام معطل کر دیا اور پھر حکومت کو منی بجٹ لا کر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
'آئی ایم ایف نے ٹیکس چھوٹ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا'
حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا تھا جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔
حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چھوٹ ختم کرنے سے اسے 343 ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔
معاشی اُمور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ حکومت آئے روز پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی تھی، لیکن آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ اگر پروگرام جاری رکھنا ہے تو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کی جائے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ حکومت منی بجٹ لانے میں مجبور ہوئی ورنہ اس کی اور کوئی وجہ نہیں۔
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ جون میں وفاقی بجٹ کے تخمینے غلط ثابت اس لیے ہوئے کیوں کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی لہر کے باعث پیداواری لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ لہذٰا حکومت کے اخراجات بڑھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت منی بجٹ اس لیے لائی کیوں کہ براہِ راست ٹیکسز میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے اِن ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔
تجارتی خسارہ کم ہونے کا امکان ہے؟
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ جب تک برآمدات نہیں بڑھے گی اس وقت تک تجارتی خسارہ کم نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول حکومت نے حال ہی میں چھ ارب ڈالرز کی مشینری درآمد کی ہے۔ پاکستان کے پاس برآمد کرنے کے لیے سوائے ٹیکسٹائل مصنوعات اور چاول کے کچھ نہیں۔ لہذٰا تجارتی خسارہ بڑھے گا اور منی بجٹ بھی آتے رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ کرونا وبا کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانی زرِمبادلہ بھیج رہے تھے اب وہ بھی کم ہو گیا ہے جب کہ ڈالر قابو سے باہر ہونے سے بھی غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ لہذٰا اصل فقدان ایک مؤثر پالیسی کا نہ ہونا ہے۔
'اصلاحات کے بغیر متبادل راستہ کوئی نہیں'
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ منی بجٹ سے بچنے کا متبادل راستہ اصلاحات کے علاوہ کوئی نہیں۔ حکومت کو توانائی اور عوامی خدمات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور ایک مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے جو وہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔
اُن کے بقول، "ہم آئی ایم ایف کے پاس اس لیے جاتے ہیں کیوں کہ ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہی کام ہم اپنی برآمدات بڑھا کر اور درآمدات کم کر کے کر لیں تو ڈالرز کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔"
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی درآمدات کا 40 سے 45 فی صد حصہ تیل اور کوئلے کی درآمدات پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ کم نہیں کر سکتے۔ لہذٰا درآمدات کم کرنے کے بجائے ہماری توجہ برآمدات بڑھانے پر ہونی چاہیے۔
منی بجٹ میں کیا تھا؟
خیال رہے کہ حکومت نے منی بجٹ میں درجنوں اشیا پر دی گئی سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی تھی جس میں بچوں کے دودھ سے لے کر ادویات کی تیاری کے لیے منگوائے جانے والا خام مال بھی شامل ہے۔
حکومت نے بچوں کے دودھ، ادویات کے خام مال، چاندی اور سونے کے زیورات، پنیر، مکھن، دیسی گھی پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لگا دیا ہے۔
البتہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیکس سے عام آدمی پر صرف دو ارب کا بوجھ پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ملک کی معیشت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
منی بجٹ کا مسودہ رواں ہفتے ایوانِ بالا سینیٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔