پاکستان کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد فنانس ترمیمی بل 22-2021 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو 'منی بجٹ' قرار دیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ایجنڈے کی کارروائی کے مطابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے ایوان میں ضمنی مالیاتی بل پیش کیا۔ اس بل کے پیشِ ہونے پر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے احتجاج شروع کیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔
حزبِ اختلاف نے 'منی بجٹ' کو پارلیمنٹ کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہی بلکہ کئی اشیا پر حاصل چھوٹ ختم کر رہی ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ وہ 'منی بجٹ' کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے نہیں دیں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں مالیاتی ترمیمی بل پر اتحادی جماعتوں اور کابینہ اراکین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی ٹیکسوں میں عائد چھوٹ ختم کرنے اور مزید ٹیکس عائد کرنے سے مشروط کر رکھی ہے۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے استثنیٰ کے خاتمے کی صورت میں مہنگائی کے نئے طوفان کا خدشہ ہے جس سے آئندہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمت اور کھاد کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
مالیاتی ترمیمی بل میں کیا ہے؟
قومی اسمبلی میں پیش کردہ مالیاتی ترمیمی بل کے مطابق حکومت نے درآمد شدہ موبائل فونز پر اضافی 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بل کے مطابق سونے اور چاندی پر ٹیکس ایک فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد، زرعی بیج، پودوں، آلات اور کیمیکل پر پانچ فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد سیلز ٹیکس لاگو ہو گا۔
ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس آٹھ فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد، درآمدی گوشت، غیر ملکی سرکاری تحائف اور عطیات پر بھی 17 فی صد ٹیکس لاگو ہو گا۔
حکومت نے ڈیوٹی فری شاپس سمیت بیکریوں، ریسٹورنٹ اور فوڈ چین پر بھی 17 فی صد سیلز ٹیکس نافذ کیا ہے۔
درآمد شدہ مرغی کے گوشت، پراسس شدہ دودھ، پیک دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر ٹیکس 10 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔
بزنس ٹو بزنس رقم منتقلی پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 17 فی صد کرنا، ادویات کے خام مال پر 17 فی صد جی ایس ٹی اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مالیاتی ترمیمی بل میں پرچون فروشوں کا ٹیکس 10 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔ مائننگ اور پولٹری سیکٹر کے لیے درآمدی مشینری پر بھی 17 فی صد ٹیکس لاگو ہو گا۔
کیا مالیاتی ترمیمی بل منظور ہو جائے گا؟
حکومت کی اتحادی جماعتیں اگر فنانس ترمیمی بل کی مخالفت کرتی ہیں یا حق میں ووٹ نہیں دیتیں تو حکومت کے لیے اسے ایوان سے منظور کرانا مشکل ہوگا۔
اگر پارلیمنٹ میں عددی تعداد کو دیکھا جائے تو حکمران جماعت تحریک انصاف کی 156 نشستیں ہیں اور ان کے اتحادی اراکین کی تعداد مل کر 180 تک پہنچ جاتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں متحدہ حزب اختلاف کے اراکین کی کل تعداد 162 بنتی ہے۔
منی بجٹ کی منظوری کے لیے حکومت کو اپنے اراکین کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے اراکین کی ایوان میں موجودگی لازمی بنانا ہوگی۔
اس سے قبل نومبر میں حکومت قومی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکی تھی اور حزب اختلاف نے ایوان زیریں میں دو قانونی بلوں کی منظوری پر حکومت کو شکست دی تھی۔