میانمار کے دارالحکومت نیپیٹا کی عدالت سے منسلک ایک ذریعے نے خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ آنگ سان سوچی کو چار سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ انہیں دو سال قید کی سزا میانمار کے درآمد۔برآمد کے قانون کی خلاف ورزی اور دو سال کی سزا ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قانون کی خلاف ورزی پر سنائی گئی ہے۔
سوچی پر الزام ہے کہ انہوں نے دوطرفہ گفتگو کے واکی۔ٹاکیز ریڈیو غیر قانونی طور پردرآمد کئے اور یہ کہ انہوں نے کرونا وائرس سے متعلق ضابطوں کی خلاف ورزی کی۔
پیر کے روز سنائی جانے والی اس سزا سے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ پہلے، سوچی پرلوگوں کو گڑبڑ پراکسانے اور گذشتہ برس پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک ریلی میں کووڈ19 کی پابندیوں پر عمل نہ کرنے کے الزامات میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
ابتدا میں انہیں چار سال کی سزا سنائی گئی تھی مگربعد میں میانمار فوج کے لیڈر، من آنگ لائینگ نے سزا میں دو سال کی تخفیف کر دی تھی۔
یکم فروری 2021 کو فوج کی جانب سے سویلین حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے سوچی پر بے شمار الزامات عائد کئے گئے ہیں اور اگر سب میں انہیں سزا سنائی گئی تو یہ 100 سال سے زیادہ کی قید ہو سکتی ہے۔
انہیں سرکاری راز افشا کرنے کے ایکٹ کی خلاف ورزی، لوگوں کو گڑ بڑ پر اکسانے، اپنی خیراتی فاؤنڈیشن کے لئے سرکاری زمین کے غلط استعمال اور غیر قانونی طور پر 600,000 ڈالر کیش اور 11کلو گرام سونا وصول کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد انہیں دوبارہ سیاست میں آنے سے روکنا ہے۔
سوچی کی جماعت، 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' نے نومبر 2020 کے انتخابات میں فوجی جنتا کی حمایت والی 'یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی' کے مقابلے میں بڑے پیمانے پرسبقت حاصل کر لی تھی۔
فوج نے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کے تحت سویلین حکومت ختم کردی اور الیکشن کے نتائج منسوخ کر دیئے۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے ختم کئے جانے سے پہلے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
معزول حکومت میں سوچی کی حیثیت سٹیٹ کونسلر کی تھی۔ فوجی جنتا کی بغاوت کے بعد انہیں ملک کے صدر ہو ون منت اور دیگر اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے ہمراہ حراست میں لے لیا گیا تھا اور وہ تب سے جیل میں ہیں۔
بعد کے دنوں میں فوج اور عام شہریوں کے درمیان پر تشدد جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ایک غیر منافع بخش نگراں تنظیم، 'اسسٹینس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز' کے مطابق ان مظاہروں میں لگ بھگ 1,400 عام شہری ہلاک ہو گئے۔
اسی دوران ملک بھر میں، فوج اور متعدد مسلح نسلی گروپوں کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپیں ہوتی رہیں۔
( اس خبر میں کچھ مواد اے پی، رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے)