خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے بارے میں بلوچستان ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس کے مطابق خواتین کو قرآن اور اسلامی شریعت کے مطابق جائیداد میں ان کا حق دینے اور اس سلسلے میں خواتین کی رہنمائی کے لیے نادرا کو تحصیل کے دفاتر میں خصوصی ڈیسک قائم کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
رواں ماہ سات اگست کو خواتین کو حقِ وراثت اور صوبے میں جاری سیٹلمنٹ کے عمل میں ان کے حق کو نظر انداز کرنے اور خواتین کو محروم رکھنے سے متعلق ایڈووکیٹ محمد ساجد ترین کی پٹیشن پر عدالت نے فیصلہ سنایا تھا۔
اس درخواست کی سماعت دو رکنی بینچ نے کی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد کامران خان ملاخیل پر مشتمل تھا۔
دو رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ہم 21ویں صدی کا حصہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں البتہ اس کے باوجود بھی تقریباََ ہر فرد نے خواتین حصے داروں کو ان کے حقِ وراثت سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی خاتون کو حق سے دستبرداری، تحفے، دلہن کا تحفہ، نگہداشت الاؤنس یا کسی معاوضے میں کیش کی ادائیگی کے نام پر وراثت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی کسی مد میں ادا کیے گئے معاوضے یا جبر سے یہ حق ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان وجوہات یا کسی بھی دوسری وجہ سے خاتون وارث کو میراث میں اس کے حق سے محروم کرکے جائیداد کی کوئی منتقلی کی جاتی ہے تو اسے کالعدم کیا جائے گا۔
سماجی کارکن اور قانون دان بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور خاتون وکیل جمیلہ کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کے لیے جو فیصلہ دیا ہے یہ تصفیے کے مسئلے پر ہے۔
جمیلہ کاکڑ کے بقول جب بھی سیٹلمنٹ کے ایشوز ہوتے ہیں تو 20 فی صد سے بھی زائد خواتین کو ان کا حق نہیں ملتا ۔ حالاں کہ اگر پاکستان کی آبادی کو دیکھا جائے تو خواتین اور مردوں کی آبادی تقریباً برابر ہے لیکن جائیداد میں تصفیے کے اکثر واقعات میں زیادہ حصہ مردوں کو ملتا ہے۔
ان کے مطابق عام طور پر وراثت میں لوگ انتقال وراثت کے دوران خواتین کا نام کاغذات سے نکال دیتے ہیں اور اکثر خواتین کو اس بات کا علم تک نہیں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ناخواندہ ہے اس لیے جعل سازی کرکے ان خواتین سے دستخط یا انگوٹھے کا نشان لگوا لیے جاتے ہیں۔
فیصلے سے کیا خواتین کو فائدہ ہو گا؟
جمیلہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ وراثت میں خواتین کو حق فراہم کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے پر سو فی صد عمل درآمد ممکن ہے۔
ان کے بقول ہمارے پاس سرکاری سطح پر پورا نظام موجود ہے جس طرح فیصلے میں بھی کہا گیا ہے کہ تحصیل میں نادرا کا ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر پورا سسٹم نادرا ریکارڈ کے ذریعے چلے تو سب کچھ نادرا ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک ہو جائے گا۔ اس کے بعد ایک کلک پر تمام خاندان کا ’فیملی ٹری‘ سامنے آئے گا تو کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جائیداد میں لوگوں کو ان کا حق فراہم کرنے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ تحصیل کے عملے کی اصلاح کی جائے۔ کیوں کہ جائیداد کے جتنے بھی مسائل ہیں وہ تحصیل کے عملے سے جڑے ہوئے ہیں۔
جمیلہ کاکڑ نے کا کہنا ہے کہ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ تحصیل میں بہت زیادہ بدعنوانی ہوتی ہے۔ جب جائیداد ٹرانسفر کی جاتی ہے تو عملہ پیسے لے کر ایک جائیداد کئی لوگوں کے نام پر منتقل کر دیتا ہے۔
ان کے مطابق بعض اوقات عملے کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ خاتون اپنے حق کے لیے دفتر کے چکر لگا رہی ہے اس کے باوجود چند پیسوں کی خاطر خواتین کو ان کی وراثت سے محروم کیا جاتا ہے۔
سماجی کارکن جمیلہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگر اس فیصلے کی روشنی میں تحصیل کے پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تو نہ صرف خواتین کو ان کا حق دلانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ لینڈ مافیا سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
وراثت کی منتقلی میں خواتین کو درپیش مشکلات
جمیلہ کاکڑ نے بتایا کہ ان کے پاس خواتین کے ایسے بہت سے کیسز آئے ہیں جن میں خواتین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون کا کیس انہیں یاد ہے۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی خاتون نہیں تھیں۔ وہ شادی شدہ تھی اور ان کے شوہر بیرونِ ملک تھے اور ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان خاتون کے بھائیوں نے والد کے مکان کا انتقال اپنے نام کرایا اور بعد میں اس جائیداد کو فروخت کر دیا۔ خاتون کو جب علم ہوا تو وہ ان کے پاس آئیں۔ مگر سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ خاتون کو خسرہ نمبر یا جائیداد نمبر معلوم نہیں تھا۔
واضح رہے کہ اراضی کی ملکیت سے متعلق ریکارڈ کی تقسیم میں ایک زمرہ خسرہ نمبر کہلاتا ہے۔
جمیلہ کاکڑ کے نے بتایا کہ انہوں نے اپنے طور پر تحصیل آفس سے خسرہ نمبر معلوم کرایا مگر بعد میں پتا چلا کہ خاتون کے پاس اراضی کا فرد بھی نہیں تھا۔ ان تمام دستاویزات کی عدم موجودگی میں کیس دائر کرنا مشکل کام ہے۔
ان کے مطابق ایسے بہت سے کیسز ہیں کہ خراب نظام کی وجہ سے خواتین کو اپنا حق حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے کے بعد اگر تحصیل کے نظام کو نادرا کے ساتھ لنک کیا جائے گا تو اس سے کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا۔
اسلامی قوانین میں خواتین کا حقِ وراثت
مذہبی اسکالر مولانا انوار الحق حقانی نے بتایا کہ خواتین کو قرآن اور حدیث میں جائیداد میں ان کا حق فراہم کرنے کا واضح حکم ہے۔
مولانا حقانی کے مطابق جب کسی کی وفات ہو تو اس کے ورثا کو جائیداد میں حقوق دینے کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ باپ کی وفات پر بیوی، بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنا اپنا حق دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اپنی خوشی سے اپنا حصہ کسی کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے اور اس بات کو پیشِ نظر رہنا چاہیے۔
مولانا حقانی کے مطابق خواتین کو اپنے حق کے حوالے سے علما سے معلومات لینی چاہیئں اور علما بھی اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی فراہم کریں تاکہ بلوچستان جیسے معاشرے میں جہاں خواتین کی شرح تعلیم کم ہے ان کو اپنے حق کا علم ہو۔
آئینی درخواست دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ساجد ترین ایڈووکٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں اور کافی عرصے سے یہ سوچ رہے تھے کہ قبائلی معاشرے میں ایسے فرسودہ روایات موجود ہیں جو خواتین کے حقوق میں رکاوٹ ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں وراثتی جائیداد کی تقسیم کی جو نئی سیٹلمنٹ یا تصفیے ہو رہے ہیں ان میں سے صرف دو فی صد میں خواتین کو فائدہ ہوا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں ایسی آئینی درخواست دائر کی جائے جو اسلامی قوانین کے مطابق وراثت میں خواتین کے حق کے لیے ہو۔
ساجد ترین نے بتایا کہ خواتین کو وراثت میں حق فراہم کرنے کے لیے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسا جامع فیصلہ نہیں آیا جس میں سیٹلمنٹ افسران کی بے قاعدگیوں پر سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے سے خواتین کو بہت فائدہ ہوگا کیوں کہ سول عدالتوں کے بجائے اب وہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے پاس ایک سادہ کاغذ پر لکھی درخواست دے کر اپنا حق حاصل کر سکتی ہیں۔
ان کے مطابق وراثت میں خواتین کو حصہ نہ ملنے کے ہزاروں کی تعداد میں کیسز سول عدالتوں میں کئی کئی سال سے چل رہے ہیں اور پاکستان میں ان کیسز کی تعداد لاکھوں میں ہے اس فیصلے سے بلوچستان ہی نہیں پورے ملک کی خواتین مستفید ہو سکتی ہیں۔