روس نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے ماسکو کے مطالبات مسترد کیے جانے کے بعد مشرقی یورپ میں کشیدگی میں کمی کے لیے بہتری کی امید رکھنے کی کم ہی وجوہات موجود ہیں۔ روس نے مطالبہ کیا تھا کہ یوکرین کے نیٹو کے رکن بننے پر مستقل پابندی عائد کی جائے اور مغربی ممالک روس کے ساتھ ملحق اس ملک کو اسلحے کی فراہمی بند کریں اور اپنے فوجی واپس بلائیں۔
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ امریکہ نے اس کے مطالبات پر جو جواب دیا ہے، وہ ان کے بقول مثبت جواب نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ کے جواب کا کچھ حصہ دیگر ثانوی معاملات پر سنجیدہ گفتگو کے آغاز کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ان مطالبات کو بات چیت میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب قرار دیتے ہوئے، امریکہ نےانہیں مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعینات اپنی فوجیں واپس بلالے، اور روس کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے جس میں فوجی مشقوں اور شفافیت کے علاوہ میزائلوں کی تنصیب کے معاملوں پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔
امریکی سفیر برائے روس، جان سلیوان نے بدھ کو بالمشافہ طور پر ایک دستاویز روسی وزارت خارجہ کے حوالے کی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق، نیٹو نے بھی یوروپی سلامتی سے متعلق اپنا جواب روس کو روانہ کر دیا تھا، جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ صرف چند صفحات پر مشتمل ہے۔
ایک اخباری کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ہماری جانب سے روس کو جو دستاویز دی گئی ہیں اس میں سیکیورٹی کو نقصان پہنچانے والی روس کی کارروائیوں کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لاحق تشویش کا معاملہ بیان گ ہے؛ اور روس کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا اصولوں اور عملی تشخیص کی بنیاد پر جواب دیا گیا ہے؛ ساتھ ہی ہم نے ان معاملات پر اپنی تجاویز پیش کی ہیں، جہاں جہاں ہمیں یکساں موقف کی گنجائش نظر آئی ہے''۔
بلنکن نے کہا کہ 'یوکرین میں فوجی نقل و حرکت سے متعلق حقائق کے بارے میں شفافیت پر مبنی باہمی اقدامات کے امکان کے ساتھ ساتھ یوروپ میں دفاعی مشقوں کے بارے میں اعتماد سازی میں اضافے کے اقدامات کے معاملے کو اٹھایاہے۔''
انھوں نے کہا کہ یوکرین کے دفاع کو تقویت دینے اور روسی جارحیت کی صورت میں فوری اور متحد جوابی کارروائی کی تیاری کے معاملوں پر مساوی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔
بلنکن نے کہا کہ انھیں توقع ہے کہ آئندہ چند روز کے اندر وہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے ملاقات کریں گے، جس دوران روس امریکہ کی جانب سے دیے گئے جواب کو زیر غور لا چکا ہوگا۔
بلنکن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ''اگر روس سفارت کاری اور مکالمے کی راہ اختیار کرتا ہے یا پھر یوکرین کے خلاف جارحیت کا فیصلہ کرتا ہے، ہم دونوں طرح کی صورت حال کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
ادھر یوکرین کے وزیر خارجہ دمیتروکلیبا نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ روس یوکرین کی سرحد پر جاری بحران کے حل کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششیں جاری رہیں گی اور یہ کہ یوکرین کسی جارحانہ اقدام کے بارے میں کوئی حکمت عملی تیار نہیں کر رہا ہے۔
ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کلیبا نے کہا کہ 'ہم نے سفارتی راہ اپنا رکھی ہے، اور تنازع کے سفارتی تصفیے کے لیے ہم مختلف سطح پر روس کے ساتھ رابطہ کرنے پر تیار ہیں''۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر روس لڑنا چاہتا ہے تو ہم جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ یہ ہمارا وطن ہے، جس کا دفاع کریں گے''۔
یوکرین، روس، فرانس اور جرمنی کے عہدے داروں نے بدھ کے روز پیرس میں مذاکرات کیے جس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ برلن میں مذاکرات کا دوسرا دور ہوگا۔
یوکرین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بری خبر یہ ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا؛ جب کہ اچھی خبر یہ ہے کہ مشیر اس بات پر رضامند ہیں کہ دو ہفتے کے اندر برلن میں ملاقات کریں گے؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر آئندہ دو ہفتوں تک روس سفارتی راہ اپنائے رکھے گا''۔
حکام کا کہنا ہے کہ جوابی مراسلے اس لیےروانہ کیے گئے ہیں تاکہ روس کی تشویش کا جواب دیا جائے، ساتھ ہی تمام فریقوں کو یہ موقع مل سکے کہ وہ سفارت کاری کو مزید جاری رکھ سکیں۔
(خبر کا کچھ مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)