سن 1977 میں جب اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کی رہائی کے لیے مہم اور پارٹی کی قیادت ان کے کسی بیٹے نے نہیں بلکہ بیٹی نے سنبھالی تھی۔
یہ بیٹی کئی برس بعد نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی بھی پہلی خاتون وزیراعظم بنی۔ ایسا شاید اسی لیے ممکن ہو پایا کہ ذوالفقارعلی بھٹو روشن خیال، جہاندیدہ اور اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کی قابلیت سے واقف تھے۔
پاکستان کو یہ اہم سنگ میل حاصل کیے کئی دہائیاں گزر گئیں مگر یہ وہی ملک اور معاشرہ ہے جہاں بیٹوں اور بیٹیوں میں اب بھی تفریق کی جاتی ہے۔
اس کا اندازہ ان خبروں سے لگایا جا سکتا ہے جو حال ہی میں شہ سرخیاں بنیں:
نومبر 2021: نارووال میں عمران نامی شخص نے اپنی بیوی عشرت بی بی کو اپنی ماں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا۔ 14 سال سے شادی شدہ عشرت بی بی کچھ ہی دنوں میں تیسری بیٹی کو جنم دینے والی تھیں جو ان کے سسرال کو قبول نہیں تھا حالاں کہ اس جوڑے کا ایک بیٹا بھی تھا۔
فروری 2021: تیس سالہ صبا کو ان کے شوہر، ساس، دیور اور شوہر کے بہنوئی نے تشدد کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔ وجہ؟ صبا نے چار ماہ قبل دوسری بیٹی کو جنم دیا تھا جس پر ان کے سسرال والے ان سے نا خوش تھے۔
جون 2020: سندھ کے شہر دادو میں عبداللہ سومرو نے اپنی نوجوان بیوی یمنہ کو دوسری بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں سریے سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔
اگست 2019 میں وائس آف امریکہ کی نمائندہ ثمن خان کو قصور میں ایک ایسا خاندان ملا جو اپنی بہن کے قتل پر گریہ کناں تھا۔ اس خاندان کے مطابق ان کی بہن نسرین کے شوہر نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو تشدد کر کے مار دیا۔ وجہ پھر وہی ٹھہری کہ نسرین کے ہاں چوتھی بیٹی کی ولادت ہوئی تھی اور شوہر کا کہنا تھا وہ صرف بیٹیاں ہی پیدا کرتی ہے۔
ایدھی ہوم کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی ہوم کے جھولوں میں ڈالے گئے بچوں میں اسی فی صد لڑکیاں ہوتی ہیں جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں کچرا کنڈیوں میں ملنے والے نوزائیدہ بچوں کی لاشوں میں بھی 80 فی صد سے زائد بچیاں ہی ہوتی ہیں۔
یہ سب واقعات یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ لوگوں کو اولاد کی صورت میں بیٹی قبول نہیں اور وہ کسی بھی طرح اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔
اس ہفتے وائس آف امریکہ کے پروگرام ع-مطابق میں معاشرے میں بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تفریق کو ہی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ پروگرام میں اپنی بیٹیوں کی وجہ سے سر فخر سے بلند کیے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری ملازم محمد صفدر سے ملاقات سمیت بیٹیوں کی پیدائش پر طعنے سننے والی ماؤں کی گفتگو بھی شامل ہے۔
اس ہفتے کا پروگرام آپ وائس آف امریکہ کے فیس بک اور یو ٹیوب چینل کے علاوہ اس فیچر میں دیے گئے لنک پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ایسے بہت سے خاندان ملیں گے جو نہ صرف بیٹیوں کی بہترین پرورش کر رہے ہیں بلکہ ان کے لاڈ بھی اٹھاتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی بہت سی خواتین جنہیں قدرت بیٹیوں کی نعمت سے ہی نوازتی ہے وہ مستقل سماجی اور خاندانی دباؤ میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔
بیٹیوں پر فخر کرنے والےمحمد صفدر نے اپنی چاروں بیٹیوں کو بہترین تعلیم دلوائی اور اب وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بیٹے کی خواہش تو رہی مگر اس کا غلبہ نہیں رہا اور بیٹیوں کی کامیابیوں پر وہ ہمیشہ فخر کرتے رہے۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ابھی دیکھنا ہے کہ وہ ماں باپ کا سر فخر سے کب بلند کرتا ہے۔
"بیٹی" کے نام سے ڈیجیٹل میڈیا پر سماجی پروگرام چلانے والی رما چوہدری کے مطابق ملک میں بڑی تعداد میں اسقاطِ حمل کرائے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعے پہلے ہی یہ پتا چل جاتا ہے کہ بیٹی پیدا ہونے والی ہے۔
رما کے مطابق اکثر خاندانوں میں اب بھی بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے کہ ان سے انہیں کچھ حاصل ہونے کے بجائے جہیز اور جائیداد کی صورت میں کچھ دینا پڑ جائے گا۔
ایک اور وجہ بتاتے ہوئے رما کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کرانے والی اکثر ماؤں کو خود بیٹی کے پیدا ہونے پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن انہیں شوہر اور سسرال کی جانب سے طلاق اور قتل کی دھمکیاں مل چکی ہوتی ہیں۔ کبھی اپنی شادی اور کبھی اپنی جان بچانے کے لیے یہ خواتین ان بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ابارشن کے ذریعے ختم کرا دیتی ہیں۔
جن خاندانوں میں صرف بیٹیاں ہوں یا بیٹیوں کی تعداد زیادہ ہو ایسے والدین بالخصوص ماؤں کو دوسروں کی چبھتی نظروں اور طنز کا سامنا رہتا ہے۔ کبھی کوئی یہ کہہ کر کہ"ان کے خاندان میں تو صرف بیٹیاں ہی ہوتی ہیں" رشتہ کرنےسے کتراتا ہے تو کبھی کوئی ترس بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
بیٹیاں کمتر کیوں؟
بیٹیوں کو رحمت پکارنے والے معاشرے میں بیٹیوں سے دوسرے درجے کے انسانوں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ سماجی ترقی کے ماہرین کے مطابق اس کی جڑیں معاشی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ نسل در نسل چلے آرہے ثقافتی اور معاشرتی رویوں میں پیوست ہیں۔
ہمارے آس پاس ہی کئی خاندان ایسے ہوں گے جہاں بیٹوں کو بیٹیوں سے بہتر اسکولز میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان پر نہ صرف خرچ زیادہ کیا جاتا ہے بلکہ کھانے پینے میں بھی بہترین غذا یا جسے رما "لاڈلی بوٹی" کہہ کر پکارتی ہیں وہ بیٹے کی پلیٹ میں ہی ڈالی جاتی ہے اور یوں معاشرے میں بیٹوں یا پھر مردوں کا افضل اور اہم ہونا بچپن سے ہی دماغ پر ثبت ہو جاتا ہے۔ اور شادی ہو جائے تو یہی بیٹی معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے اخراجات کے لیے شوہر پر انحصار کرتی ہے اوراکثر اسےہتک آمیز رویہ اور گھریلو تشدد برداشت کرتے رہنا پڑتا ہے۔
بعض والدین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ معاشرے میں بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کی حفاظت زیادہ مشکل ہے اور پھر کون جانے پرائے گھر جا کر اس کے نصیب میں کیا ہو!
یہ رویہ کیسے تبدیل ہوگا؟
ایسے سماج میں جہاں بیٹیوں کو کہا رحمت اور سمجھا زحمت جاتا ہے وہاں سماجی تعلیم اور ایڈووکیسی کے ذریعے ہی اس سوچ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جب والدین کو یہ باور کرایا جائے کہ بیٹیاں بھی ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکتی ہیں، نسلیں بیٹیوں سے بھی چلتی ہیں۔
ٹی وی ڈراموں میں لڑکیوں اور خواتین کو مظلوم اور بے بس دکھانے کے بجائے مضبوط کرداروں کے طور پر سامنے لایا جائےتو اس کا اثر ضرور پڑے گا۔
سائنس تو یہ بھی کہتی ہے کہ بچے کی جنس ماں نہیں باپ کی جینیات اور کروموسومز پر منحصر ہوتی ہے اور بیٹی پیدا کرنے کا اگر واقعی کوئی قصوروار ہے تو پھر وہ مرد ہے مگر ضرورت یہ ہے کہ ایسی معلومات عوام الناس تک پہنچیں تاکہ ان کی سوچ اور رویے میں تبدیلی پیدا کی جاسکے۔
سوچ کی تبدیلی کا یہ سفر مشکل ضرور لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ مگر اس کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر ملک میں بچیوں کے قتل یا فیمیل انفنٹیسائڈ کو مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اسے روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور بیٹوں اور بیٹیوں کے یکساں معاشرتی مقام کی حمایت اور اس کی اہمیت پر تواتر سے ملک گیر مہمات چلائی جائیں تو آہستہ ہی سہی تبدیلی کا سفر زور ضرور پکڑے گا۔
کیونکہ آگہی کے لیے آگاہی ضروری ہے۔