چین کے چار روزہ سرکاری دورے کے بعد پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان فروری کے آخر میں روس کا دورہ کریں گے جو 23 برس کے بعد پاکستان کے کسی بھی وزیرِاعظم کا ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔
عمران خان کے حالیہ دورۂ چین کے بعد رواں ماہ روس کے دورے پر جانے کے اعلان کے بعد اب یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ پاکستان شاید چین کے بلاک میں شامل ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1999 میں روس کا دورہ کیا تھا ۔ جب کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 2003 میں اورسابق صدر آصف زرداری 2011 میں روس کا سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان روس کے صدر ولادی میر پوتن کی دعوت پر روس کا ایسے وقت دورہ کریں گے جب اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
بعض مبصرین بیجنگ کےدورے کے بعد وزیرِاعظم عمران خان کے دورۂ ماسکو کو خاص اہمیت دے رہے ہیں۔ عمران خان نے ایک ایسے وقت میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا جب امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریب کا سفارتی بائیکاٹ کیا تھا۔
پاکستان کئی مواقع پر واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا اور امریکہ ہو یا چین، سب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔ البتہ حالیہ پیش رفت کے بعد بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ قربتیں بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان کے وزیراعطم ایک ایسے وقت روس کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جب یوکرین کے معاملے پر مغربی ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات میں تناؤ ہے۔
روس کی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا انحصار ماسکو پر؟
ماسکو میں پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین کا کہنا ہے کہ وزیر ِاعظم عمران خان کا ایک ایسے وقت میں روس کا دورہ کرنا محض اتفا ق ہے کیونکہ ان کےبقول یوکرین کے معاملے پر پاکستان نے غیر جانبدار پوزیشن اختیار کر رکھی ہے۔
لیکن شاہد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کتنی جلد تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں ا س کا انحصار ان کےبقول ماسکو پر ہو گا۔
شاہد امین کا کہنا ہے کہ روس اور بھارت کے بہت اچھے تعلقات کے باوجود اگر روس پاکستان میں دلچسپی لے رہا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔
اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات سابق سوویت یونین دور میں انتہائی کشیدہ رہے تھے۔ سوویت یونین کی 70 کی دہائی میں افغانستان میں مداخلت کے دوران پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔
پاکستان روس چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن کا خواہاں؟
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد، ماسکو کے ساتھ پائیدار تعلقات استوار کرنے کے لیے کوشاں ہے جب کہ چین کے ساتھ پہلے ہی پاکستان کے تعلقات ٹھوس بنیادو ں پر استوار ہیں۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان چین، روس اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا چاہے گا۔
کیا دورہ روس کا امریکہ، پاکستان تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے؟
جسپال کے بقول امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے میں کوئی پیش رفت نطر نہیں آئی ہے۔
اُن کے بقول امریکہ اب بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا اسی طرح ساتھ دے جس طرح پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کی جنگ کے دوران دیا تھا لیکن ان کےبقول شاید اب ایسا ممکن نہ ہو۔
لیکن شاہد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ چین اور رواں ماہ دورہ ماسکو سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی اسرٹیجک تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیونکہ پاکستان عالمی سطح پر بڑے ممالک کے درمیان تناؤ میں فریق نہیں بنے گا۔
شاہد امین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کا رجحان چین کی طرف بڑھا ہے۔ لیکن ان کے بقول اس کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ واشنگٹن نے اسلام آباد کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جس کی اسلام آباد کو توقع تھی۔
البتہ شاہد امین کا کہنا ہے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ چین سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے۔
اُن کے بقول امریکہ نے پاکستان کے نامزد سفیر مسعود خان کی سفارتی اسناد بھی قبول کر لی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔
شاہد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کی قربتوں کے باوجود وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی زیادہ تناؤ ہے۔
تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان اس کے باوجود دنیا کے بڑے ممالک بشمول امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا چاہے گا۔
اُن کے بقول چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کے باوجود پاکستان اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے چاہے گا کہ اس کا کسی ایک ملک کی طرف مکمل جھکاؤ نہ ہو بلکہ اسلام آباد کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ امریکہ اورچین کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے میں کردار ادا کر سکے۔
البتہ ظفر جسپال سمجھتے ہیں کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ ماضی میں رہے ہیں۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ امریکہ کا عالمی مالیاتی اداروں میں اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے، لہذٰا پاکستان جیسے ممالک کے لیے امریکہ کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے۔