افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئے ساڑھے پانچ ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ مگر کسی بھی ملک نے ابھی تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ تاہم حال ہی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خاں متقی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئےدعوی کیا ہے کہ طالبان اب بین الاقومی سطح پر تسلیم کیے جانے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی حکومت ملک کے اندر رعائتیں کسی کے دباؤ پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اور اپنی شرائط پر ہی دے گی۔
اوسلو میں مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد وطن واپسی پر اے ایف پی کو اپنے پہلے انٹرویو میں کیا جانے والا ان کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟ زمینی حقائق اس بارے میں کیا بتاتے ہیں؟ اس سوال افغان اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ افغانستان میں آئندہ جلد ہی کوئی ایسی حکومت تشکیل پا جائے گی جسے دنیا تسلیم کرلے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں اس وقت طالبان کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔
پروفیسر حسن عسکری بین ا لاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک اسکالر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ فی الحال تو ایسے کوئی اشارے نہیں مل رہے ہیں کہ کوئی ملک، خاص طور پر دنیا کے بڑے ممالک طالبان کو تسلیم کرنے والے ہوں۔
’’ یہ ضرور ہے کہ طالبان وزیر خارجہ اور کئی عہدیداروں نے دوسرے ملکوں کے دورے کیے ہیں، جیسے وہ ابھی اوسلو میں مغربی طاقتوں کے نمائندوں سے مل کر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے بینکوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر رقوم بھیج سکتے ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ ان ہی بنیادوں اور افغان باشندوں کے لیے عالمی برادری کے ہمدردانہ رویے کے سبب انہوں نے یہ تاثر لیا ہو کہ انہیں جلد ہی تسلیم کیا جانے والا ہے‘‘
پروفیسر حسن عسکری کے مطابق طالبان نے دنیا کے مطالبات کے مطابق کچھ یونیورسٹیاں بھی کھول دی ہیں۔جن میں خواتین کو بھی محدود انداز میں آنے کی اجازت دینے کی اطلاعات ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر انہیں فوری طور پر تسلیم کیے جانے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ، اور حقیقتًا ابھی اس میں وقت لگے گا۔
پروفیسر حسن عسکری کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخر کار دنیا کو انہیں تسلیم تو کرنا پڑے گا۔ کیونکہ طالبان وہاں عملاً حکومت کر رہے ہیں۔ انہیں وہاں کوئی بڑا چیلنج بھی درپیش نہیں ہے۔ ایسے بھی آثار نہیں ہیں کہ وہاں کوئی ان کی حکومت ختم کردینے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے ان حالات میں بظاہر دنیا کے پاس انہیں تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا افغان عوام،خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اپنے مطالبات کے لیے زیادہ دباؤ ڈال سکے گی۔ اس لیے کہ کسی غیر تسلیم شدہ حکمراں گروپ کی نسبت حکومتی سطح پر معاملات طے کرناآسان ہوتا ہے۔ پروفیسر عسکری نے کہا کہ موجودہ طالبان اور پرانے طالبان کے درمیان یقیناً فرق نظر آ رہا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ وہ ایک قدامت پسند پس منظر رکھتے ہیں، ان میں وہ لبرل ازم موجود نہیں ہے جس کی دنیا توقع رکھتی ہے۔۔
یورپی یونین افغانستان میں اپنا دفتر کھول چکی ہے، اور بھی کچھ یورپی ممالک نے اپنے دفاتر کھولنے کا عندیہ دیا ہے ۔ مگر وہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ اس کا مطلب طالبان کو تسلیم کرنا نہیں، بلکہ افغان عوام کی مدد میں سہولت فراہم کرنا ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق ان کے خیال میں یہ دباؤ کارگر ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
جہانگیر خٹک نیو یارک سٹی یونیورسٹی میں سینٹر فار کمیونٹی میڈیا کریگ نیٹ ورک گریجوایٹ سکول آف جرنلزم میں ڈائریکٹر کمیونیکیشن ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے کہا کہ کچھ چیزیں تو ہو رہی ہیں۔ طالبان کے ساتھ دنیا کے رابطوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ یورپی یونین کا دفتر کھلا ہے۔ قطر وہاں کے لیے دوبارہ پروازیں شروع کر رہا ہے۔ کئی اور ممالک اپنے دفاتر بھی کھول رہے ہیں۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر رقوم بینکنگ چینلز کے ذریعے منتقل کرنے کی اجازت ہو گی۔ پہلے اس پر پابندی تھی۔
جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے دنیا واضح طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا مطلب طالبان حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے، بلکہ وہاں کے لوگوں کی مدد کرنا ہے، جو اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ لاکھوں بچے کم خوراکی کے سبب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ لاکھوں افراد کو شدید سردی میں بھوک، بیماریوں اور قحط کی صورت حال کے سبب موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اب اگر طالبان اور ان کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں تسلیم کیا جانے والا ہے تو حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
جہانگیر خٹک نے کہا کہ دنیا جب بات کرتی ہے تو انسانیت کے حوالے سے کرتی ہے کہ وہاں انسان خطرے میں ہیں اور جب طالبان بات کرتے ہیں تو وہ اپنی سفارتی کامیابیوں اور خود کو جائز حکومت تسلیم کیے جانے کی زیادہ بات کرتے ہیں۔ انہیں انسانی بنیادوں پر کیے جانے والے اقدامات سے یہ مراد نہیں لینی چاہیے کہ دنیا جلد ہی انہیں تسلیم کرنے جا رہی ہے۔
جہاگیر خٹک کا کہنا تھا عالمی برادری میں شامل ہونے کے لیے دنیا کی ہر حکومت کو بعض معیاروں کو اپنانا پڑتا ہے۔ اور بعض شرائط کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ جس میں ایک فعال حکومت کا قیام، متحرک معیشت کا ہونا اورایک ایسی حکومت کا ہونا شامل ہیں جو ملک کے تمام طبقوں کی نمائندہ ہو۔اس کے علاوہ وہ حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کرتی ہو، اور وہ دہشت گرد گروپوں کو اپنی حدود سے نکال باہر کرے۔ طالبان حکومت کو دنیا کو ابھی یہ دکھانا ہے کہ وہ ان معیاروں پر پورا اترنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان جیسے جیسے بین الاقوامی معیاروں پر پورے اترتے جائیں گے، وہ اتنے ہی عالمی سطح پر قبولیت سے اتنے ہی قریب بھی ہوتے جائیں گے۔