پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی کوششیں مزید تیز کر دی ہیں جب کہ حکومت نے بھی اپوزیشن کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کمر کس لی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر منگل کو لاہور پہنچے تھے جہاں اُنہوں نے صنعتی شعبے کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا ہے اور سیاسی ملاقاتیں بھی کیں۔
دورۂ لاہور کے دوران وزیرِ اعظم اپنی اہم اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے اُن کی رہائش گاہ بھی گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایسے وقت میں لاہور کا دورہ کیا جب یہ شہر گزشتہ کئی روز سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے قائدین جہاں اپنے سیاسی رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں حکمراں جماعت بھی اتحادیوں کو منانے کے لیے لاہور میں متحرک ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کے اعلان کے بعد بڑھتے ہوئے سیاسی درجۂ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیرِ اعظم خود میدان میں اُترے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ تحریکِ عدمِ اعتماد سے زیادہ لوگوں میں مہنگائی کی وجہ سے پائی جانے والی بے چینی حکومت کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور ملکی معیشت کو درپیش مسائل کی وجہ سے حکمراں جماعت تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ لہذٰا وزیرِ اعظم کو اس کا ادراک ہے اور پیر کو پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے اُنہوں نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے اعلانات کا اثر یہ ہوگا کہ اُن کی جماعت سے وابستہ رہنماؤں اور ہمدردوں کے پاس لوگوں کی شکایات کا جواب دینے کے لیے کچھ ہو گا۔
وزیرِ اعظم نے پیر کو قوم سے خطاب کے دوران پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں دس دس روپے اور بجلی کے فی یونٹ قیمت میں پانچ روپے کمی کا اعلان کیا تھا جو اس جانب اشارہ تھا کہ حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریلیف پیکج اور اتحادیوں کو منانے کی کوششیں حکومت کے کام آئیں گی؟
چوہدری برادران سے ملاقات کے سوال پر مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ جب تک مستقبل کا خاکہ واضح نہیں ہو جاتا، چوہدری برادران اس وقت تک کسی بھی پلڑے بھی اپنا وزن نہیں ڈالیں گے۔
اُن کے بقول تحریکِ عدم اعتماد یا پنجاب کی وزارتِ اعلٰی سے زیادہ چوہدری برادران کی دلچسپی آئندہ الیکشن اور اس کے بعد کے سیاسی منظر نامے پر ہے۔ لہذٰا جب تک وہ صورتِ حال واضح نہیں ہوتی، مسلم لیگ (ق) کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرے گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ مہنگائی کے خاتمے کا سب سے پہلا مطالبہ چوہدری شجاعت حسین نے کیا تھا۔ لہذٰا وزیرِ اعظم نے اُن کی اس بات کا مان رکھتے ہوئے عوام کو ریلیف دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتحار احمد کا کہنا تھا "سوال یہ ہے کہ حکومت عوام کو یہ ریلیف کس مد میں دے گی، کیوں کہ پچھلے ہفتے ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں تو اچانک کیا بدل گیا کہ قیمتیں کم کر دی گئیں۔"
اُن کے بقول یوکرین، روس تنازع کی وجہ سے دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں، لہذٰا آئندہ چار ماہ تک حکومت کہاں سے ریلیف دے گی، یہ وہ سوال ہے جس کا وزیرِ اعظم نے جواب نہیں دیا۔
افتحار احمد کہتے ہیں کہ ملکی معیشت پر اس ریلیف پیکج کی وجہ سے 350 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا، کیا کوئی بتائے گا کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟
مجیب الرحمان شامی بھی افتحار احمد سے اتفاق کرتے ہیں، اُن کے بقول حکومت کے لیے آئندہ ڈیڑھ سال مسلسل ریلیف دینا بہت مشکل ہو گا۔
اُن کے بقول عمران خان فیصلہ کر چکے ہیں اور وزیرِ خزانہ شوکت ترین بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ سبسڈی کے لیے گنجائش نکال لیں گے۔ لہذٰا اب دیکھنا ہو گا کہ شوکت ترین درست ثابت ہوتے ہیں یا اُن کے ناقدین کا مؤقف ٹھیک ثابت ہوتاہے۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے کے لیے یکسو ہیں؟
افتحار احمد کہتے ہیں کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کے حوالے سے اب بھی اپوزیشن جماعتیں یکسو نہیں ہیں۔ تاہم وہ سب متفق ہیں کہ عمران خان کو گھر جانا چاہیے۔
اُن کے بقول اُنہوں نے اپوزیشن کے بعض حلقوں سے یہ بھی سنا ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کے کسی اور وزیرِ اعظم پر معترض نہیں ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ذاتیات کی سیاست کرتے ہیں۔ لہذٰا اُنہیں گھر جانا چاہیے۔
موجودہ صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اگر سیاست دان گھر کو درست رکھیں تو پھر کوئی اُن کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف 1989 میں آنے والی تحریکِ عدم اعتماد کا تذکرہ کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی وزیرِ اعظم کو فارغ کرنے کے حق میں تھی، لیکن سیاست دانوں کی فہم و فراست کے باعث وہ تحریک ناکام ہو گئی تھی۔
اُن کے بقول اُنہیں نہیں لگتا کہ اس وقت جو صورِتِ حال ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کوئی زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اگر اراکین اسمبلی ثابت قدم رہیں اور اپنی رائے رکھتے ہوں تو پھر کوئی بھی تیسری قوت سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کہتے ہیں کہ حکومت کے اتحادی ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ شراکت داری 2023 تک قائم رہے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے کیوں کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اپنے کیسز کا انجام نظر آ رہا ہے جب کہ وزیرِ اعظم کے ریلیف پیکج اور صحت کارڈز جیسے اقدامات سے اپوزیشن کی اُمیدوں پر پانی پھر جائے گا۔اگر اپوزیشن جماعتیں تحریکِ عدم اعتماد لے کر آئیں تو اُنہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
آئینِ پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے کوئی بھی رُکن اسمبلی اگر قائدِ ایوان کے انتخاب میں 172 اراکین کی حمایت حاصل کر لے تو وہ وزیرِ اعظم منتخب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں قائدِ ایوان منتخب ہونے کے لیے 186 اراکینِ پنجاب اسمبلی کی حمایت ضروری ہے۔
قومی اسمبلی میں اگر نمبر گیم کی بات کریں تو حکمراں اتحاد کو 180 اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے 162 اراکینِ ہیں۔
تحریکِ انصاف کی مخلوط حکومت کو پی ٹی آئی کے 156 اراکینِ اسمبلی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ کے سات، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے تین، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک جب کہ دو آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کے مجموعی اراکین کی بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) کے 84، پیپلز پارٹی کے 56، متحدہ مجلسِ عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے چار، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک جب کہ دو آزاد اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
یوں اگر متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ق ہی اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیں تو حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔