بلوچستان میں چمن کے مقام پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد تین دن بندش کے بعد کھول دی گئی ہے۔
چمن میں بابِ دوستی پر 24 فروری کو سرحدی تنازع کے بعد آمد و رفت بند کر دی گئی تھی جس سے پیدل آمد و رفت کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی معطل تھی۔
چمن کے ضلعی انتظامیہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے جمعہ کو مفتی محمد قاسم کی سربراہی میں چمن کے علما اور قبائلی رہنماؤں کا ایک وفد افغانستان کے صوبہ قندھار کے گورنر سے ملاقات کرنے گیا تھا۔
پاکستانی مذاکراتی وفد اور گورنر قندہار حاجی یوسف وفا میں ہونے والی ملاقات میں چمن کے کلی شیخ لعل میں پیش آنے والے واقعے سمیت دیگر امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
دنوں جانب کے رہنماؤں کے درمیان کامیاب مذاکرت کے بعد چمن میں پاکستان افغانستان سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق 24 فروری کو چمن میں پاکستان کی افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں باڑ اکھارنے کے تنازع پر پاکستان کی فوج اور افغانستان کے طالبان کے درمیان اسپن بولدک کے ایک گاؤں میں جھڑپ ہوئی تھی اور دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا تھا۔
اس دوران سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیو کلپس بھی وائرل ہوئے تھے جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چمن سرحد باب دوستی کے قریب افغانستان جانے اور پاکستان آنے والے مسافر منتشر ہو رہے ہیں اور قریبی علاقوں میں پاکستان کی فورسز کی گاڑیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم چھ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ایک فوجی اہل کار ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں البتہ اب تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا اس سلسلے میں کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
چمن سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع ایک روایتی گزرگاہ ہے جہاں سے روزانہ سینکڑوں لوگ سفر کرتے ہیں جب کہ یہاں سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی ہوتی ہے۔
بابِ دوستی کے کھلنے پر سرحد کے دونوں جانب پھنسے مسافروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ان مسافروں میں شامل افغانستان کے شہری محمد یعقوب بھی واپس اپنے ملک روانہ ہوگئے۔ جانے سے قبل ان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ وہ اپنے بچے کے علاج کے سلسلے میں پاکستان کے شہر کراچی آئے تھے البتہ واپسی پر جب وہ چمن پہنچے تو سرحد پر فائرنگ ہو رہی تھی جس سے باب دوستی بند کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سرحد کی بندش کے باعث انہیں کافی مشکلات کا سامنا رہا اور کئی روز تک وہ چمن کے مقامی شہری کے گھر میں پناہ لینے پر مجبور رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر دو تین ماہ بعد سرحد پر کسی قسم کا تنازع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر 2600 کلو میٹر کے علاقے پر اسلام آباد نے باڑ لگائی ہے۔ پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ باڑ لگانے سے افغانستان سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کی روک تھام ممکن ہوگی۔
پاکستان نے چار سال قبل افغانستان سے متصل اپنی سرحدوں پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 90 فی صد علاقوں میں باڑ لگانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
چمن کے ایک سینئر صحافی نعمت اللہ سرحدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 24 فروری کو ہونے والے ناخوش گوار واقعے کے حوالے سے جب انہوں نے ذرائع سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ جھڑپ پاکستان اور افغانستان کے ایک متنازع گاؤں کلی شیخ لعل محمد میں اس وقت ہوئی جب ایک نوجوان سرحد پر لگے باڑ کو اکھاڑنے کی کوشش کررہا تھا۔
نعمت سرحدی کے بقول پاکستان کی فورسز نے فائرنگ شروع کی جس کے بعد کشیدگی اور جھڑپیں شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں اموات بھی ہوئی ہیں۔
ان کامزید کہنا تھا کہ چمن میں قبائلی مشران اور سیکیورٹی فورسز کے ایک جرگے میں سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ سرحد پر جھڑپ میں ان کا ایک اہل کار ہلاک جب کہ تین زخمی ہوئے تھے۔
واقعے کے بعد سرحد سے متصل گاؤں کلی شیخ لعل محمد میں فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے چار افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
سرحد پر جھڑپیں شروع ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر چمن کے احکامات پر شہر کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔
نعمت سرحدی نے بتایا کہ چمن کی سرحد سے متصل کلی شیخ لعل محمد، کلی ماذل، کلی مراد، کلی سید کریم اور کلی باچا وہ علاقے ہیں جس پر پاکستان اور افغان حکام میں تنازع ہے اور ماضی میں بھی باڑ لگانے کے دوران ان علاقوں میں حالات کشیدہ ہوتے رہے ہیں۔
ادھر افغٖان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاحد نے سوشل میڈیا پر حالیہ واقعے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ قندھار کے علاقے اسپن بولدک میں پاکستانی فورسز سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پہلی گولی پاکستان کی فورسز کی جانب سے چلائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ صورتِ حال اب قابو میں ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ وہ اس بات کی مکمل تحقیقات کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ادھر تین روز تک سرحد کی بندش کے باعث دونوں اطراف پر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی معطل رہی۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر انجینئر دارو خان اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد کی بندش سے دونوں جانب سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں جس سے پھل اور سبزیاں خراب ہوگئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تنازع سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
انجینئر دارو خان اچکزئی نے کہا کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو سرحد بند کردی جاتی ہے جس سے عام عوام کو آمد دو رفت میں مشکلات کے ساتھ دونوں ملکوں کے تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔